|
ویب ڈیسک—امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد تمام باغی گروہوں سے رابطے میں ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے مطابق امریکہ چاہتا ہے کہ شام میں نئی حکومت کا قیام وہاں کی عوام کی امنگوں کے مطابق ہو۔
وائٹ ہاؤس کے نیشنل سیکیورٹی کے کمیونی کیشن ایڈوائزر جان کربی نے وائس آف امریکہ کی ترک سروس سے گفتگو میں کہا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ شام میں جو بھی نئی حکومت سامنے آئے وہ عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہو۔
شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے والی تنظیم ’ہیئت تحریر الشام‘ کے حوالے جان کربی نے کہا کہ القاعدہ سے الگ ہونے والی اس تنظیم اور اس کے سربراہ کے بارے میں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ وہ اپنے نظریات کو تبدیل کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ ہیئت تحریر الشام اور اس کے سربراہ محمد الجولانی کو امریکہ کے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
اسرائیل کے شام اور گولان ہائیٹس پر حملوں کے حوالے سے جان کربی نے کہا کہ اسرائیل شام میں اپنے آپریشن کے حوالے سے خود تفصیلات بتائے گا۔ اس کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
ان کے بقول اسرائیل اپنے لیے کئی خطرات محسوس کرتا ہے۔ اس کو شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا امکان اور ان کے ممکنہ استعمال کا خدشہ ہے۔
القاعدہ سے ہیئت تحریر الشام کی علیحدگی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الجولانی اس وقت ایک مشترکہ حکومت کی درست بات کر رہے ہیں جب کہ وہ اقلیتوں یا دیگر گروہوں کو نشانہ بنانے کا بھی کہہ رہے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے انتظار کرکے دیکھنا ہوگا کہ وہ اچھی طرزِ حکمرانی کے لیے کیا کیا اقدامات کرتے ہیں۔
ان کے بقول وہ ابھی بھی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ البتہ اس سے جو بھی حکمرانی سامنے آئے امریکہ چاہتا ہے کہ شام کے عوام کو مستقبل میں ووٹ سے حکومت کے انتخاب اور اپنے آواز بلند کرنے کا حق حاصل ہو۔
شام کے شمال میں کردوں کی آزاد ریاست پر ترکیہ کے خدشات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ترکیہ کے اپنے عوام کے تحفظ کے لیے خدشات جائز ہیں۔ اس حوالے سے امریکہ ترکیہ سے رابطے میں رہا ہے اور اس سے بات چیت کرتا رہا ہے۔
انہوں نے کرد فورسز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شام میں داعش کے خلاف کارروائیاں سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کی مدد سے کی گئی ہیں۔
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ کو شام میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے جان کربی نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جب صدارت کا عہدہ سنبھالیں گے تو وہ اپنے منصوبے پیش کر سکتے ہیں۔
جان کربی کے بقول اس وقت امریکہ کے قومی مفاد میں دو معاملات اہم ہیں جن میں پہلا معاملہ شام میں پر امن انداز میں انتقالِ اقتدار اور شام کی عوام کی قیادت میں ایک جائز حکومت کا قیام ہے جب کہ دوسری چیز امریکہ کے قومی سلامتی کے مفاد میں ہے کہ داعش کو دوبارہ 2014 کی طرح سر اٹھانے کا موقع نہ دیا جائے اور وہ شام میں موجود حالات کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔
ایران کے حوالے سے جان کربی کا کہنا تھا کہ تہران کا ’مزاحمت کا محور‘ اب برقرار نہیں رہا۔ اس کا یہ محور کئی مقامات پر اب ختم ہو چکا ہے۔ اس فوج اور دیگر صلاحیتوں میں کمی آ چکی ہے۔ ایرانی کو خطے میں تسلط پسندانہ عزائم میں پسپائی کا سامنا ہے اور وہ اپنے عزائم کو ممکن بنانے کے قابل نہیں ہے۔