امریکی سپریم کورٹ اس ہفتے خواتین کے لئے انتہائی اہم سمجھے جانے والے اسقاط حمل کے حق سے متعلق ایک کیس پر دلائل سن کر اپنی بحث مکمل کر چکی ہے ۔ گو کہ مبصرین کے خیال میں اس کیس کا فیصلہ چھ ماہ سے پہلے آنے کی امید نہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ امریکی سپریم کورٹ کے ججوں کے اکثریت اس کیس کا فیصلہ ریاست مسی سپی کے اسقاط حمل کے اس نئے قانون کے حق میں دے سکتی ہے، جس کے تحت خواتین حمل ٹھہرنے کے 15 ہفتوں کے بعد اسقاط حمل کا حق نہیں رکھتیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے1973 میں اسقاط حمل کے حق سے متعلق دیئے گئے تاریخی فیصلے کو بھی کالعدم قرار دے دیا جائے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی سپریم کورٹ کے دو ججوں کا اس موضوع پر اپنی تقرری سے پہلے اور بعد کے موقف میں تضاد بالکل واضح ہے۔ ان دونوں ججوں نے حالیہ کیس کی عدالتی کارروائی میں ایسے سوال اٹھائے ہیں جس سے عندیہ مل رہا ہے کہ وہ ماضی کے فیصلے کو غلط قرار دے کر تبدیل کرنے کے حق میں ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ میں خواتین کے لئے اسقاط حمل کا راستہ 1973 کے مشہور مقدمات "رو بمقابلہ ویڈ" اور اس کے بعد 1992 کے "پلینڈ پیرنٹ ہڈ بمقابلہ کیسی" کے فیصلوں نے متعین کر دیا تھا۔ اس کے بعد مختلف ریاستوں کی جانب سے متعارف کروائے گئے سخت قوانین پر عملدرآمد کو ہمیشہ ان دو مقدموں کے فیصلوں کی روشنی میں عدالتوں کے ذریعے ہی روکا گیا ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کے ججز کے موجودہ پینل میں تین قدامت پسند ججز کے تقرری سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے کی تھی۔ اعلیٰ عدلیہ میں شامل ہونے والے تمام جج امریکی صدر سے نامزدگی حاصل کرنے کے بعد سینیٹ کی عدلیہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور پھر سینیٹ کے مشورے اور تصدیق کے بعد ہی ان کی تقرری عمل میں آتی ہے۔
اسقاط حمل کے حق سے متعلق انتہائی اہم سمجھے جانے والے حالیہ کیس میں صدر ٹرمپ کے مقرر کردہ جج بریٹ کیوانوو اور ایمی کونی بیرٹ کا موقف سامنے آنے کے بعد مبصرین ان دونوں ججز کے اس موقف کا حوالہ دے رہے ہیں، جو انہوں نے ججز کے عہدوں پر تقرری سے پہلے اسقاط حمل سے متعلق سینیٹ کے سامنے پیش کیا تھا۔ یہ موقف اس سے مختلف تھا، جو اس وقت ان کی جانب سے سامنے آیا ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کے جج بریٹ کاوانوو نے اپنی تقرری سے قبل سینیٹ میں سینیٹر سوزن کولن کو یہ باور کرایا تھا کہ ان کے خیال میں خواتین کا اسقاط حمل کا حق ایک غیر مبہم قانون ہے جس پر مقدموں درمقدموں کے فیصلے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس معاملے پر کوئی اور راہ اختیار کرنا آسان نہیں۔
لیکن اس حالیہ کیس میں سپریم کورٹ کی کارروائی کے دوران جج کیوانوو کا موقف یہ تھا کہ امریکی عدلیہ کی تاریخ میں بہت سے فیصلے ایسے ہیں جو پچھلے فیصلوں کو کالعدم کر چکے ہیں تو پھر یہ کیوں نہیں۔
ان کی طرح ریپبلکن صدر ٹرمپ کے دور میں امریکی سپریم کورٹ پہنچنے والی جج ایمی کونی بیرٹ نے بھی اپنی تقرری سے قبل امریکی سینیٹ کے سامنے یہ موقف پیش کیا تھا کہ قوانین محض اس لئے تبدیل نہیں کئے جا سکتے کہ وہ آپ کے ذاتی رائے سے میل نہیں کھاتے۔ ان کا کہنا تھا کہ " یہ ایمی کا قانون نہیں ہے"۔
یاد رہے کہ یہ دونوں ججز بہت ہی کم مارجن سے امریکی سینیٹ سے ووٹ لے کر سپریم کورٹ تک پہنچے ہیں۔
ریپبلکن پارٹی کی امریکی سینیٹر سوزی کولن نے جو خود اسقاط حمل سے متعلق موجودہ قانون کی حامی ہیں، قدامت پسند جج بریٹ کاوانوو کی تقرری کے وقت ان کی حمایت میں ووٹ دیا تھا لیکن دوسری قدامت پسند جج ایمی کونی بیریٹ ان کی حمایت حاصل نہیں کر سکی تھیں۔
اسی طرح ریاست الاسکا سے اسقاط حمل کے موجودہ قوانین کی حامی ایک اور ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاوسکی نے بھی سپریم کورٹ کی قدامت پسند خاتون جج ایمی کونی بیرٹ کو ووٹ دیا تھا مگر بریٹ کاوانوو کو ووٹ دینے سے گریز کیا تھا۔
اس کیس کا فیصلہ گو کہ شاید ہی اگلے چھ ماہ سے پہلے آئے لیکن مبصرین امریکی سپریم کورٹ میں ججوں کی نامزدگیوں، ان کی تقرری میں امریکی سینیٹ کے کردار اور ایک سیاسی طور پر منقسم اعلیٰ عدلیہ پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی سینیٹر اتنے بے خبر اور سادہ نہیں ہو سکتے کہ تقرری کے امیدوار ججوں کی محض باتوں پر اعتبار کر لیں۔
یاد رہے کہ امریکی صدر سے نامزدگی حاصل کرنے کے بعد سپریم کورٹ پہنچنے کے امیدوار جج کئی کئی روز تک روزانہ کی بنیاد پر امریکی سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے ہر ممبر کے کڑے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ اس طریقہ کا مقصد نہ صرف یہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ تک بہترین امیدوار پہنچے بلکہ یہ بھی کہ وہ سیاسی جھکاؤ سے اور وابستگیوں سے مبرا ہو۔
خواتین اور اسقاط حمل کے حق کے حامی کارکنان یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرریوں کے وقت امریکہ میں اسقاط حمل سے متعلق قوانین پر سوال و جواب مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، مگر ان تقرریوں اور جانچ کے عمل پر سینیٹرز کی سیاسی وابستگیوں کا گہرا اثر نظر آتا ہے جو اس پورے طریقہ کار کو ہی غیر موثر بنا دیتے ہیں۔