امریکی سپریم کورٹ نے آج ریاست مسی سپی کے اسقاط حمل کے 2018 کے قانون پر بحث کی جس دوران بار بار اسقاط حمل پر امریکی سپریم کورٹ کا سب سے اہم فیصلہ بھی زیر بحث آتا رہا۔ مسی سپی قانون کے تحت خواتین حمل ٹھہرنے کے 15 ہفتوں کے بعد اسقاط حمل کا حق نہیں رکھتی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بحث کے دوران چھ قدامت پسند اور تین لبرل ججز پر مشتمل پینل کی گفتگو سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ اس کیس کا نتیجہ ریاست کے حق میں ہی جائے گا۔ تاہم کنزرویٹو ججز میں ابھی اس بات پر واضح اتفاق نظر نہیں آ یا کہ صرف ریاست مسی سپی کے اس قانون کو تحفظ فراہم کیا جائے یا پھر "رو بقابلہ ویڈ" مقدمے کے فیصلے کو ہی کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔
اگر ریاست مسی سپی کے حق میں فیصلہ آیا تو امریکی ریاستیں اپنے طور پر اسقاط۔ حمل کی اجازت کی مدت طے کرنے پر با اختیار ہوں گی اور امریکی قانون میں خواتین کو دیا گیا اسقاط حمل کا حق چھن جائے گا۔
یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ اسقاط حمل بحث نے امریکی معاشرے کو مزید تقسیم کر دیا ہے۔ آج بھی سپریم کورٹ کے باہر پرو لائف (زندگی کے حامی) اور پرو ابارشن (اسقاط حمل کے حامی) کارکنان اپنے اپنے نظریے کی حمایت میں نعرے بازی کرتے نظر آئے۔ حامیوں اور مخالفین نے پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر "اس کا جسم، اس کی مرضی" اور "خدا ناحق خون بہانے والوں سے نفرت کرتا ہے" جیسے نعرے تحریر تھے۔
اسقاط حمل کی حامی تنظیموں کے مطابق ملک کی دس ریاستیں ایسے اسقاط حمل مخالف قوانین رکھتی ہیں جو "رو بمقابلہ ویڈ" فیصلے کے کالعدم ہوتے ہی ان ریاستوں میں اسقاط حمل کو ممنوع بنا دیں گی۔ جب کہ نو ریاستیں ایسی ہیں جہاں مختلف طریقوں سے اسقاط حمل کو روکنے کے قوانین منظور کئے گئے ہیں جنہیں عدالتی فیصلوں کے ذریعے روکا گیا ہے۔ یہ ریاستیں بھی پابندیاں لگانے میں آزاد ہو جائیں گی۔
"رو بمقابلہ ویڈ" اور "پلینڈ پیرنٹ ہڈ بمقابلہ کیسی" مقدموں کے فیصلے کیا ہیں؟
امریکی شہری گو کہ اسقاط حمل کے موضوع پر ہمیشہ ہی تقسیم رہے ہیں لیکن گزشتہ تقریباً 50 سال سے یہاں خواتین کو ابارشن یا اسقاط حمل کا حق حاصل ہے۔
1973 میں اسقاط حمل سے متعلق "رو بمقابلہ ویڈ" کیس پر تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کو خواتین کا آئینی حق قرار دیا تھا۔
1992 میں اسی سلسلے کے ایک اور تاریخی کیس "پلینڈ پیرنٹ ہڈ بقابلہ کیسی" میں سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کی اجازت کو fetal viability سے مشروط کیا تھا جس کا مطلب یہ ہوا کہ اسقاط حمل تب تک ممکن ہے جب تک رحم مادر میں موجود بچہ رحم سے باہر بھی سانس لینے کے قابل نہ ہو جائے۔ ماہرین صحت کے مطابق ایسا 23 یا 24 ہفتے تک کے حمل پر ممکن ہو سکتا ہے۔
کیا اسقاط حمل امریکہ میں سیاسی مسئلہ بھی ہے؟
امریکہ میں یہ مسئلہ ایک طرح سے ریپبلکن بمقابلہ ڈیموکریٹ پارٹی کا ایشو بھی محسوس ہوتا ہے۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ریپبلکنز زیادہ تر قدامت پسند اور مذہبی خیالات والے تصور کئے جاتے ہیں جب کہ ڈیموکریٹس کی اکثریت سیکولر اور آزاد خیال سمجھی جاتی ہے۔
اس معاملے پر امریکی ووٹرز اس قدر منقسم ہیں کہ اسقاط حمل ہر صدارتی امیدوار کی سیاسی مہم کے ایجنڈے پر ہوتا ہے۔
اسی لئےسپریم کورٹ کی سماعت سے پہلے سابق امریکی نائب صدر مائیک پینس جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ 2024 کی صدارتی دوڑ میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں، اسقاط حمل مخالف کارکنوں کی ایک تقریب میں پر زور الفاظ میں سپریم کورٹ سے "رو بمقابلہ ویڈ" کیس کے فیصلے کو برطرف کرنے کی گزارش کرتے نظر آئے۔
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن ہوں، نائب صدر کاملہ ہیرس یا اسپیکر نینسی پلوسی، اسقاط حمل پر ان کا موقف واضح ہے کہ خواتین کے جسم پر ان کا ہی اختیار ہے۔ بلکہ "رو بقابلہ ویڈ" فیصلے کو مسترد کیا جانا صدر بائیڈن کی حکومت کے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں ہو گا۔
یاد رہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سپریم کورٹ میں جج نیل گورسچ، بریٹ کاوانوف اور ایمی کونی بیرٹ کی تقرری کے بعد سپریم کورٹ کے ججز کے پینل میں قدامت پسند خیالات رکھنے والے ججز کا پلڑا بھاری ہے۔
سابق صدر اس موضوع پر دو ٹوک موقف رکھتے تھے اور سال 2016 میں انتخابات کے فوراً بعد امریکی ٹی وی CBS کے پروگرام سکسٹی منٹس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ خود بھی "پرو لائف" ہیں اور ایسے ہی ججز بھی سپریم کورٹ میں مقرر کریں گے۔ اسقاط حمل کے حامی گروہ اس وقت سے یہ خدشہ ظاہر کرتے رہے ہیں کہ ممکنہ طور پر "رو بقابلہ ویڈ" کیس کے فیصلے کو ایک دن کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔
ججز کا آج کی کارروائی میں کیا کہنا تھا؟
امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس بات پر زور دیتے نظر آئے کہ اس وقت اس مقدمے کے حوالے سے فیصلہ طلب بات اسقاط حمل کے لئے 15 ہفتے کا دورانیہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اسقاط حمل کے لئے ایسی ہی حدیں مقرر کی گئی ہیں۔
تاہم دیگر قدامت پسند ججز چیف جسٹس کی اس میانہ رو سوچ سے مطابقت رکھتے نظر نہیں آئے۔ جسٹس سیموئل الیٹو کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس دو ہی حقیقی راستے ہیں: "رو بقابلہ ویڈ" کے فیصلے کو برقرار رکھا جائے یا اسے مسترد کر دیا جائے۔
امریکی نیوز چینل CNN کے مطابق جسٹس کلیرنس تھامس اور جسٹس نیل گورسچ "رو بقابلہ ویڈ' فیصلے کو ختم کرنے کے لئے تیار ہیں جسٹس الیٹوکا جھکاؤ بھی اسی طرف نظر آ رہا ہے تاہم جسٹس کاوانوف اور جسٹس ایمی بیریٹ کوہن نے ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے۔
دوسری جانب تینوں لبرل ججز کا موقف بھی واضح ہے، وہ "رو کیس" کے فیصلے کو قائم رکھنے کے ہی حق میں ہیں۔
لبرل ججز جسٹس سونیا سوٹومیئر نے 1973 کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسے کالعدم قرار دیا گیا تو کیا یہ کورٹ عوام میں ایک سیاسی ادارہ ہونے کے تاثر کی عفونت برداشت کر پائے گا؟لبرل جسٹس الین کیگن نے بھی ان کے موقف کی حمایت کی۔
اس مقدمے کا فیصلہ کب آئے گا؟
عام طور بحث مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے میں تین مہینوں کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔ آنے والے دنوں میں جسٹسز ایک نجی میٹنگ میں اس فیصلے پر ووٹ دیں گے۔ تاہم اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اس کیس کا فیصلہ اگلے سال جون یا جولائی سے پہلے متوقع نہیں۔ اس کی ایک وجہ تو اخبار کے مطابق یہ ہو سکتی ہے کہ اس ہائی پروفائل کیس پر اس وقت گرما گرم جاری بحث کچھ تھم جائے۔ جب کہ دوسری وجہ معاشرے کو تقسیم کرنے والے ایسے فیصلے عموماً ججز ایسے وقت دینا پسند کرتے ہیں جب وہ گرمیوں کی تعطیلات پر جا رہے ہوں۔
(خبر کا کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے)