امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ میں جنوب مشرقی ایشیا کو سب سے بڑا فائدہ ہوا ہے۔ اس علاقے میں بڑی تعداد میں نئے کارخانے لگ رہے ہیں اس لیے کہ امریکہ کے عائد کردہ محصولات سے بچنے کے لیے مینوفیکچرنگ کمپنیاں چین سے باہر منتقل ہو رہی ہیں۔
جنوب مشرقی ایشیا میں انڈونیشیا کی معیشت سب سے بڑی ہے اور اس نے نئی سرمایہ کاری کے لیے بڑی جدوجہد کی ہے۔ اس جدوجہد کی ایک وجہ ملک کی وسیع بیوروکریسی ہے۔
ٹیکنالوجی کی ایک بڑی کمپنی ایپل کا سب سے بڑا سپلائر پیناران انڈونیشیا میں اپنا اسٹور بنا رہا ہے۔ یہ فیصلہ کمپنی کی جانب سے چین پر لگائے گئے نئے امریکی محصولات سے بچنے کی کوشش کا ایک حصہ ہے۔
اس انڈسٹریل پارک کے جنرل منیجر باتا مندو کہتے ہیں کہ ہر ایک جانتا ہے کہ مینو فیکچرنگ کا کاروبار زیادہ تر ویت نام کا رخ کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ ایک تشویش کا سبب ہے۔ اگر ہم میں دوسرے ممالک کے مقابلے میں مسابقت کی صلاحیت نہیں ہے تو یقیناً ہم تشویش کا شکار ہوتے ہیں۔
عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 33 کمپنیوں میں سے جو اپنی پیداوار چین سے باہر منتقل کر رہی ہیں، 23 کمپنیاں ویت نام جا رہی ہیں۔ کوئی بھی انڈونیشیا نہیں جا رہی۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انڈونیشیا میں کاروبار شروع کرنا مشکل ہے۔ بعض اوقات بزنس پرمٹ حاصل کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں، جو مطلق العنان حکومتوں، مثلاً ویت نام کے مقابلے میں طویل مدت ہے۔
انڈونیشیا کے شہر بیٹم کے صنعتی زون کے سابق سربراہ ایڈی آئراویڈی کا کہنا ہے کہ ویت نام میں دوسرے علاقائی ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ آسانی ہے۔ اس لیے کہ ان کی حکومت مضبوط ہے۔ لیکن انڈونیشیا جمہوریت کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔
انڈونیشیا کے شہر بیٹم کے فری ٹریڈ زون کے سابق سربراہ کا کہنا ہے کہ جب سے انڈونیشیا نے 1998 میں کثیر جماعتی جمہوریت بحال کی ہے، بہت کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ میں 1983 میں حکومت میں شامل ہوا۔ میرے لیے یہ آسان تھا کہ میں ایک پالیسی بناؤں۔ مجھے لوگوں سے یہ نہیں پوچھنا پڑتا تھا کہ وہ میری پالیسی سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں۔ اور پھر صدر محض اس پر دستخط کر دیتے تھے۔
انڈونیشیا کے آمر سوہارتو کے 32 سالہ اقتدار کے دوران معیشت کی منصوبہ بندی مرکزی طور پر کی جاتی تھی۔
لیکن 1998 میں وسیع مظاہروں کے بعد جب وہ سبکدوش ہوئے تو پھر اتھارٹی بہت سے سرکاری مراحل میں منتشر ہو گئی اور انڈونیشیا جسے ایک وسیع ملک میں یہ کام ہمیشہ اکھٹے نہیں ہوتا۔ اور مسئلہ بدعنوانی کا ہے جو ظاہر ہے دوسرے ملکوں میں بھی ہے۔
انڈونیشیا کی صورت حال پر تبٖصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کار یودھیس تیرا کہتے ہیں کہ معیشت کے حوالے سے کچھ زیادہ قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے کہ آپ کو نہ صرف مرکزی حکومت میں کچھ لوگوں کو رشوت دینی پڑتی ہے بلکہ مقامی حکومت کے لوگوں کو بھی۔ اور اس طرح سرمایہ کاری کے اعتبار سے اس میں دشواری پیدا ہوتی ہے۔
انڈونیشیا کی نئی حکومت اس مسئلے پر توجہ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ پرمٹ کی شرائط میں کمی کر رہی ہے اور کچھ دوسرے بہتر اقدامات بھی کر رہی ہے۔
انڈونیشیا کے وزیر خارجہ مہیندراسیگار کہتے ہیں کہ ملبوسات، جوتے، ربڑ کے ٹائر اور غالباً گھریلو مشینوں اور فرنیچر کو لے لیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو انڈونیشیا پہلے ہی خوش اسلوبی سے بنا چکا ہے۔ ان کی مانگ بڑھ رہی ہے، خاص طور پر امریکہ میں۔
تاہم، اب جب کہ امریکہ اور چین اپنی تجارتی جنگ کو ختم کرنے کی کوشش میں ہیں، اونڈونیشیا میں بعض لوگوں کو اس بات پر تشویش ہے کہ ان کا ملک پہلے ہی بہت سے مواقع ضائع کر چکا ہے۔