سندھ طاس آبی معاہدے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کی غرض سے نئی دہلی میں منعقدہ انڈس واٹر کمیشن کا دو روزہ اجلاس ختم ہو گیا، جس میں پاکستان کی قیادت وہاں کے آبی کمشنر محمد مہر علی شاہ اور بھارت کی قیادت یہاں کے کمشنر پی کے سکسینہ نے کی۔
اجلاس کا ایجنڈہ پہلے سے طے تھا، تاہم پاکستان نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارت کے دو پراجیکٹس پکل ڈل ڈیم اور لوئرکلناری ڈیم پر اعتراض کیا۔
یہ پراجیکٹس دریائے چناب پر زیر تعمیر ہیں۔ پاکستان 2013 سے ہی ان کی مخالفت کر ہا ہے۔معاہدے کے مطابق بھارت کو تعمیر شروع کرنے سے چھ ماہ قبل ہی پاکستان کو اس کی تفصیلات فراہم کر دینی چاہئیں تھیں۔
پاکستان کا الزام ہے کہ ان پراجیکٹس کی تعمیر معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ بھارتی وزارت خارجہ کے ایک اہل کار نے کہا کہ یہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اجلاس خوشگوار ماحول میں ہوا۔
کشن گنگا پراجیکٹ ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ لیکن بھارت نے رتل ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ پر تبادلہ خیال کی تحویز پیش کی جسے پاکستان کی جانب سے مسترد کر دیا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس تنازع پر دونوں ملکوں کے مابین واشنگٹن میں ہونے والے سیکرٹری سطح کے مذاکرات میں تبادلہ خیال ہوا تھا لہٰذا یہ ایشو کمیشن کے دائرے میں نہیں آتا۔
پاکستان نے کشن گنگا اور رتل سمیت انڈس بیسن میں جاری بھارتی منصوبوں کے دورے کے بارے میں دروخواست کی جس پر بھارت نے غور کرنے کا وعدہ کیا۔
معاہدے کے مطابق اگر کسی ملک کی جانب سے ایسے کسی دورے کی درخواست کی جاتی ہے تو پانچ سال کے اندر دورہ ہو جانا چاہیے۔ پاکستان 2014 سے ہی اس کی درخواست کر رہا ہے۔ اب تک پاکستان کی جانب سے 70 اور بھارت کی جانب سے 48 دورے ہو چکے ہیں۔