اصفر امام
پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شہر کراچی کا شمار کچرے، صنعت اور ٹریفک کی آلودگی اور صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث جنوبی ایشیاء کے پانچویں گندے ترین اور آلودہ شہر وں میں ہونے لگا ہے۔
مقامی روزنامہ دی نیشن کے مطابق بھارتی شہر ممبئی،گوالیار اور بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ کی حالت کراچی سے معمولی بہتر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں صفائی ستھرائی کی موجودہ سنگین صورتحال شہر کی سیاسی تقسیم کی وجہ سے ہے ۔ اور اب اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں کہ وفاقی حکومت ہنگامی بنیادوں پر شہر کی صفائی ستھرائی کے لئے براہ راست مداخلت کرے۔
بعض عوامی نمائندوں کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شہر میں روزانہ سولہ ہزار ٹن کچرا نکلتا ہے۔ تاہم سرکاری اعداد وشمار میں ہر روز شہر سے اکھٹا ہونے والا کچرا 12 ہزار ٹن ہے۔
اس کچرے کا صرف نصف یعنی چھ ہزار ٹن کو روزانہ کی بنیادوں پر ٹھکانے لگانے کا انتظام موجود ہے۔
شہر میں صفائی ستھرائی کی ذمہ داری بلدیاتی اداروں سے لے کر سندھ حکومت کے ماتحت ادارے ویسٹ منجمنٹ بورڈ کے حوالے کر دی گئی ہے جو ڈسٹرکٹ میونسپل کونسل کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت کچرے کی صفائی کا کام کرتا ہے
۔سندھ ویسٹ منجمنٹ بورڈ کے منجینگ ڈائریکٹر سعید احمد منگریو کا کہنا ہے کہ شہر کی چار ضلعی کونسلیں ان کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں ۔
وہ کہتے ہیں کہ چار اضلاع میں ہم کام کر رہے ہیں۔ ہم نے کنٹریکٹ اوٹ سورس کیا ہوا ہے۔ ایک چینی کمپنی یہ کام کر رہی ہے۔ ہم خود نگرانی کرتے ہیں اور پرانا گند بھی صاف کیا جا رہا ہے اور صاف کچرا جمع کرنے کا ایک نظام مرتب کیا ہے جس کے تحت ہر دروازے سے کچرا جمع کرکے جی ٹی ایس پر لایا جاتا ہے اور جہاں سے اسے لینڈ فل سائٹ پر ڈمپ کردیا جاتا ہے ۔ لیکن اب بھی کچھ علاقے باقی ہیں جہاں کچرہ صاف نہیں ہو رہا کیونکہ یہ ڈی ایم سی کی نگرانی میں ہیں لیکن اس مسلے کا بھی جلد حل نکال لیا جائے گا۔
کراچی کے ڈپٹی میئر ارشد وہرہ کا کہنا ہے کہ شہر میں صفائی ستھرائی کا سنگین مسئلہ شہر کی سیاسی بنیادوں پر تقسیم کی وجہ سے ہے اور صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا کہ وفاقی حکومت اس کام میں مداخلت کرے۔
ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں بارہ ہزار کچرہ بنتا ہے، اس میں سے کچھ ضلع کی ذمہ داری ہے کچھ کی ذ٘مہ داری سندھ سولڈ ویسٹ منجمنٹ بورڈ نے لے لی ہے، اور کچھ میں کنٹورنمنٹ بورڈ نے۔ یہ سارا ایک کنفیوژ نظام ہے، یونیٹی اف کمان ختم ہو گئی ہے۔ اگر سنجیدگی سے کام کیا جائے تو صرف دو ماہ میں معاملہ حل ہوسکتا ہے
معروف تجزیہ کار اور طویل عرصے سے مقامی حکومتوں کی رپورٹنگ سے وابستہ صحافی محمد انور بھی تصدیق کرتے ہیں کہ شہر میں بلدیاتی خدمات فراہم کرنے کا نظام نہایت کنفیوژن کا شکار ہے جس کی وجہ سے شہری سہولتوں کی فراہمی سنگین صورتحال سے دوچار ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس شہر میں روزانہ سولہ ہزار ٹن کچرا بنتا ہے اگر بارہ ہزار ٹن بھی مان لیا جائے تو کچرا ٹھکانے لگانے کی صلاحیت صرف چھ ہزار ٹن ہے۔ اس طرح ہر روز شہر میں چھ ہزار ٹن کچرے کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ سندھ سولڈ ویسٹ منجمنٹ بورڈ بدستور اسی طرح کام کر رہا ہے جس طرح پہلے ہوتا تھا صرف کنٹریکٹر تبدیل کئے گئے ہیں، کوئی جدید طریقہ کار نہیں اپنایا گیا اور کمپنی ان ہی پرانے لوگوں سے کام چلا رہی ہے ۔
پاکستان میں نئی قائم ہونے والی حکومت کو اہل کراچی کا مینڈیٹ بھی حاصل ہے، اس شہر سے حکمراں جماعت کے متعدد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ اور حکمراں جماعت بھی شہر کے اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کی خواہشمند نظر آتی ہے۔
اگر صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کے درمیان شہر کی ترقی کے لئے ہم اہنگی پیدا نہ ہوئی تو پھر وفاقی حکومت ہنگامی بنیادوں پر مداخلت کرنا پڑے گی۔