|
حال ہی میں چین میں ڈیولپ ہونے والے ایک ویڈیو گیم نےنہ صرف لاکھوں شائقین کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے بلکہ اسے وہاں سرکاری سطح پر بھی سراہا جا رہا ہے۔
چین ایک ایسا ملک ہے جہاں بچوں کے ویڈیو گیمز کھیلنے پر کئی پابندیاں عائد ہیں اور جس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ کتنے گھنٹے کھیل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت ویڈیو گیم انڈسٹری میں اخراجات گھٹانے پر بھی زور دیتی ہے۔
لیکن ’بلیک متھ۔ ووکانگ‘ کی نمایاں کامیابی پر چینی حکومت بھی خوش دکھائی دیتی ہے۔ چین کے شمال مشرقی صوبے شانسی کی حکومت نے مقامی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اس کھیل کے ڈیولپر کے ساتھ مل کر کام کرنے کی دعوت دی ہے ۔ چین کا سرکاری میڈیا کھیل پر تعریفی مضامین شائع کر رہا ہے۔
’بلیک متھ۔ ووکانگ‘ اعلیٰ ترین معیار پر اترنے والی چین کی پہلی ویڈیو گیم ہے۔ یہ ایک بڑے بجٹ سے تیار کی گئی ہے اور اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسے بیک وقت 24 لاکھ لوگوں نے کھیلا، جس سے سنگل پلیئر کے ساتھ آن لائن گیم کھیلنے کا سابق ریکارڈ ٹوٹ گیا۔
یہ اعزاز بھی ویڈیو گیم کے کریڈٹ پر ہے کہ اپنی لانچ کے بعد تین دن کے اندر اس کی ایک کروڑ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں۔
چین کی گیمنگ انڈسٹری کے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اس گیم کو ایک قومی اعزاز کے طور پر دیکھتے ہیں جس نے اس صنعت پر مغربی تسلط کے چیلنج کیا ہے اور چینی ثقافت کو فروغ دیا ہے۔
اس ویڈیو گیم نے"سیکس ازم" کو کس طرح اجاگر کیا ہے:
یہ ایکشن گیم ’شن جین‘ میں قائم ایک کمپنی ’گیم سائنس‘ نے ڈیولپ کی ہے۔اگست میں اپنے لانچ ہونے کے بعد پہلے ہی چند گھنٹوں میں لاکھوں افراد نے نہ صرف اسےکھیلا بلکہ اس گیم کی کہانی اور اس کے گرافکس کی بھی تعریف کی۔ لیکن دوسری جانب چینی ویڈیو گیم میں جنسیت کے پہلو پر تنقید بھی کی جا رہی ہے ۔
اس ویڈیو گیم کی لانچ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ویڈیو گیم کی صنعت پر مردوں کا غلبہ ہے، اور عورتوں کے بارے میں لطائف کا تبادلہ عام ہے، کئی اور پہلوؤں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔
ویڈیو گیم کے ڈیولپر نے اس سلسلے میں آن لائن کچھ جارحانہ پیغامات پوسٹ کیے جس نے تنقید کو مزید ہوا دی اور چین کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو پر ایک تنقید پوسٹ کو چار لاکھ سے زیادہ لائکس ملے۔
اگرچہ ویڈیو گیمز کھیلنے والوں میں مردوں اور عورتوں کی تعداد تقریباً برابر ہے، لیکن گیمنگ انڈسٹری میں خواتین کی شرکت محض 22 فی صد ہے۔
بلیک میتھ۔ ووکانگ کی پروڈکشن ٹیم 20 افراد پر مشتمل ہے، جس میں صرف ایک خاتون انجنیئر شامل ہے۔ ان کا نام ’سکیلر ہو‘ ہے، ان کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کے مرد ساتھی اکثر آپس میں خواتین سے متعلق لطا ئف کا تبادلہ کرتے ہیں۔ میں نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن وہ باز نہیں آئے۔
ایک سابق ویڈیو گیم آپریشن منیجر جیسکا ہو (ٖفرضی نام) کہتی ہیں کہ مردوں میں ایسے لطائف بہت عام ہیں جن میں خواتین کے متعلق استحصال اور جارحیت کا پہلو نکلتا ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ مذاق کی بات ہے۔لیکن تضحیک آمیز ریمارکس ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔
تنقید کا یہ سلسلہ گیمنگ انڈسٹری میں موجود چینی خواتین کی بڑھتی ہوئی برہمی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
چین کی چینگ ڈو سائبر گیم انڈسٹری ایسوسی ایشن کے سیکرٹری فینگ شو کہتے ہیں کہ بلاشبہ ’بلیک متھ۔ ووکانگ‘ کو چینی گیمنگ انڈسٹری میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے‘۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ان کے خیال میں الزامات اور تنقید کا ویڈیو گیم کی کامیابی پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا کیونکہ گیم کو صرف تفریح کے لیے کھیلا جاتا ہے۔
کھیلوں کی ایک اور ناقد ایشلے لی کہتی ہیں کہ ویڈیو گیمز کے زیادہ تر ڈیولپر مرد ہوتے ہیں جس کی وجہ سے آپ کو بہت سی ویڈیو گیمز میں عورتوں کو غیر ضروری طور پر ہدف بنایا جاتا ہے۔لیکن میرا خیال ہے کہ آہستہ آہستہ یہ رجحان تبدیل ہو جائے گا۔ ہمیں اسے کچھ وقت دینا چاہیے۔
(اس رپورٹ کی معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)
فورم