رسائی کے لنکس

کلکتہ ریپ کیس: 25 ممالک میں احتجاج، عدالت کی احتجاج کرنے والے ڈاکٹرز کو کام پر واپس جانے کی ہدایت


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔
  • عدالت نے کلکتہ میں ڈاکٹر کے ریپ کیس پر سی بی آئی کو تازہ رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت دی ہے
  • پیر کو ہونے والی سماعت میں مغربی بنگال حکومت سے ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر سمیت کیس سے متعلق کارروائی پر سخت سوالات پوچھے گئے
  • قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں ریب کیس کی سماعت سے اس معاملے کی سنگینی اجاگر ہوگی اور دیگر فریادیوں کو بھی حوصلہ ملے گا
  • ایک ماہ مکمل ہونے پر کلکتہ ریپ کیس پر احتجاج کا سلسلہ بھارت سے نکل کر 25 ممالک تک پھیل گیا

نئی دہلی__ بھارت کی ریاست مغربی بنگال کے شہر کلکتہ کے ایک سرکاری اسپتال میں ایک ٹرینی ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے معاملے کو ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ اس واقعے کے خلاف ہونے والے احتجاج کا سلسلہ اب 25 ملکوں تک پھیل گیا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے اس معاملے پر پیر کو دوبارہ سماعت کی ہے۔ کیس کی جانچ کرنے والے تفتیشی ادارے ’سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن‘ (سی بی آئی) نے عدالت میں اسٹیٹس رپورٹ جمع کرائی۔

رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے سی بی آئی کو تازہ رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے اور آئندہ سماعت کے لیے 17 ستمبر کی تاریخ مقرر کردی ہے۔

سپریم کورٹ نے 18 اگست کو اس معاملے کا از خود نوٹس لیا تھا۔ اور اس پر 20 اگست کو سماعت شروع کی تھی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے علاوہ جے بی پاردی والا اور منوج مشرا کا تین رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

سی بی آئی کو دوبارہ اسٹیٹس رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرنے پر قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ جب اسٹیٹس رپورٹ نامکمل ہوتی ہے یا اس کے ساتھ تمام ضروری دستاویزات نہیں ہوتیں تو عدالت دوسری رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت دیتی ہے۔

کلکتہ کے آر جی کر میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل میں ایک 31 سالہ خاتون ٹرینی ڈاکٹر کے قتل اور ریپ کا واقعہ پیش آیا تھا۔ نو اگست کی صبح ڈاکٹر کی لاش اسپتال کے سیمینار ہال میں نیم عریاں حالت میں پائی گئی تھیں جس پر زخموں کے نشانات تھے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے بینچ نے 20 اگست کو سماعت کے دوران اس واقعے کو انتہائی خوف ناک قرار دیا تھا۔ عدالت نے کام کے مقامات پر ڈاکٹروں بالخصوص خاتون ڈاکٹرز کے تحفظ کے سلسلے میں تشویش ظاہر کی تھی اور ان کے تحفظ کے لیے پروٹوکول بنانے کے لیے ایک 10 رکنی ٹاسک فورس تشکیل دی تھی۔

عدالت نے سماعت کے دوران مغربی بنگال حکومت سےاس معاملے پر سخت سوالات کیے۔ سپریم کورٹ نے ایف آئی آر درج کرنے میں 14 گھنٹے کی تاخیر اور پوسٹ مارٹم کے لیے ضروری اہم دستاویز ’چالان‘ کی عدم موجودگی پر بھی سوال اٹھایا۔

جسٹس جے بی پاردی والا نے کہا کہ پوسٹ مارٹم کے لیے لاش لے جاتے وقت چالان لے جانا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بغیر پوسٹ مارٹم نہیں ہو سکتا۔ لیکن چالان کے بغیر پوسٹ مارٹم کیسے کر دیا گیا۔

مغربی بنگال حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ انھیں چالان کی کاپی نہیں ملی ہے۔ انھوں نے اسے پیش کرنے کے لیے عدالت سے وقت دینے کی استدعا کی۔

کپل سبل نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹروں کے ہڑتال پر ہونے اور ڈیوٹی جوائن نہ کرنے کی وجہ سے اب تک 23 مریضوں کی موت ہو چکی ہے۔ اس سلسلے میں ریاستی حکومت کی جانب سے ایک رپوٹ جمع کرائی گئی ہے۔ انھوں نے عدالت سے اپیل کی کہ وہ ڈاکٹروں کو ڈیوٹی جوائن کرنے کی ہدایت دے۔

سپریم کورٹ نے اگست میں سماعت کے دوران ڈاکٹروں سے کہا تھا کہ اگر وہ ڈیوٹی جوائن کرتے ہیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور اگر غیر حاضر رہتے ہیں تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹروں کو اپنی ڈیوٹی پر واپس آنا چاہیے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ سینئر ڈاکٹر کام کر رہے ہیں لہٰذا وہ ڈیوٹی پر واپس نہیں آئیں گے۔

انھوں نے ڈاکٹروں سے منگل کی شام پانچ بجے تک کام پر لوٹنے کا کہا۔ انھوں نے خبر دار کیا کہ اگر ڈاکٹر کام پر نہیں آئیں گے تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

’سپریم کورٹ کی کارروائی اہم ہے‘

انسانی حقوق کے کارکنوں اور قانونی ماہرین کی نظروں میں سپریم کورٹ میں اس معاملے پر سماعت ہونا ایک اہم بات ہے۔ ان کے خیال میں ملک بھر میں خواتین کے خلاف مسلسل جرائم ہو رہے ہیں جنھیں روکنے کی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اسعد علوی کا کہنا ہے اس کیس میں سپریم کورٹ کی کاررووائی سے واضح ہوتا ہے کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے۔

ان کے مطابق سال 2024 میں یہ دوسرا موقع ہے جب سپریم کورٹ نے کسی معاملے پر از خود نوٹس لیا ہے۔ اس عدالتی کارروائی کے بعد اس قسم کے دیگر واقعات کے متاثرین میں یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ ان پر بھی عدالت از خود کارروائی کرے گی۔

ریاست اتراکھنڈ کے رودرپور میں ایک 35 سالہ مسلم نرس کے ریپ اور قتل کا معاملہ بھی سرخیوں میں ہے۔ رپورٹس کے مطابق نرس 30 جولائی کو لاپتہ ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد گھر کے قریب ایک خالی پلاٹ سے آٹھ اگست کو نرس کی لاش مسخ شدہ حالت میں ملی تھی۔

اہل خانہ نے نرس کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام لگایا ہے اور معاملے کی تحقیقات سی بی آئی سے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسعد علوی کا کہنا تھا کہ ایسے کیسز میں عدالت کوئی مخصوص ہدایت نہیں دیتی۔ بلکہ ایک عام ہدایت ہوتی ہے جو وسیع پیمانے پر نافذ ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت اس معاملے میں ریپ اور قتل کے واقعے پر سماعت نہیں کر رہی ہے۔ وہ معاملہ تو ٹرائل کورٹ میں چلے گا۔ یہاں سپریم کورٹ مجموعی صورت حال کا جائزہ لے رہی ہے۔

لیڈی ڈاکٹر کا ریپ کیس کلکتہ ہائی کورٹ میں بھی زیرِ سماعت ہے۔

امریکہ میں ہونےوالا مظاہرہ۔
امریکہ میں ہونےوالا مظاہرہ۔

مظاہرے اور ہاتھوں کی زنجیر

ادھر اتوار کی رات میں کلکتہ کے رہائشیوں نے بڑی تعداد میں گھروں سے نکل کر اس واقعے کے خلاف مظاہرہ کیا۔ انھوں نے اظہار یکجہتی کے طور پر 15 کلومیٹر تک انسانی زنجیر بنائی۔ وہ اپنے ہاتھوں میں تختیاں لیے ہوئے تھے جن پر انصاف کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس واقعے کے خلاف احتجاج اب کلکتہ کی سڑکوں سے نکل کر یوروپ،ایشیا اور امریکہ کے شہروں سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں پھیل گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اتوار کے روز 25 ملکوں کے 130 شہروں میں مظاہرے کیے گئے۔ پہلے جاپان، آسٹریلیا، تائیوان اور سنگاپور میں مظاہرے ہوئے اور پھر یہ سلسلہ مختلف یورپی ملکوں اور امریکہ میں پھیل گیا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG