رسائی کے لنکس

خوشبو کو آواز اور تصویر کی طرح ریکارڈ کرنا ممکن ہو گیا


خوشبو انسانی اعصاب پر گہرا اثر ڈالتی ہے اور اسے راحت دیتی ہے جب کہ بدبو اسے بے چین اور مضطرب کر دیتی ہے۔
خوشبو انسانی اعصاب پر گہرا اثر ڈالتی ہے اور اسے راحت دیتی ہے جب کہ بدبو اسے بے چین اور مضطرب کر دیتی ہے۔

سائنس دان مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک ایسا کمپیوٹر ماڈل بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو خوشبو اور بدبو کو اسی طرح ریکارڈ کر سکے گا جس طرح تصویروں، ویڈیوز اور آوازوں کو ریکارڈ کیا جاتا ہے۔

بو یا خوشبو کو ڈیجیٹل شکل میں محفوظ کرنا اور اس کا ریکارڈ رکھنا اب تک ایک دشوار کام سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ جس طرح انسانی دماغ ہوا میں موجود بو کو محسوس کر کے اس کا تعین کرتا ہے، وہ ایک بہت پیچیدہ اور طویل عمل ہے۔

بو حقیقت میں ہوا میں تیرتے ہوئے کیمیکل کے مالیکیول ہوتے ہیں۔ وہ ناک کے ذریعے ان اعصاب تک پہنچتے ہیں جو خوشبو یا بدبو کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ اعصاب انہیں برقی لہروں میں تبدیل کر کے دماغ کے اس حصے کو پیغام بھیجتے ہیں جس کا تعلق سونگھنے کی حس یا قوت شامہ سے ہوتا ہے۔

کھانے سے قبل سونگھ کر یہ تعین کیا جا رہا ہے کہ اس کا ذائقہ کیسا ہو گا، فائل فوٹو۔
کھانے سے قبل سونگھ کر یہ تعین کیا جا رہا ہے کہ اس کا ذائقہ کیسا ہو گا، فائل فوٹو۔

انسانی جسم میں بو کو محسوس کرنے والے اعصاب کی تعداد تقریباً 400 ہوتی ہے، جو مختلف نوعیت کی خوشبو یا بدبو کی شناخت کر سکتے ہیں۔ یہ اعصاب باہم مل کر کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کروڑوں اقسام کی بو کو الگ الگ پہچان سکتے ہیں۔ جب کہ انسانی دماغ خوشبو اور بدبو کی تقریباً 50 ہزار اقسام کی شناخت اپنی یاداشت میں محفوظ رکھ سکتا ہے۔

جریدے سائنس ٹو ڈے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بو کو ڈیجیٹل شکل دینے کے پراجیکٹ پر ماہرین کی ایک ٹیم کام کر رہی ہے جن کا تعلق ’مونل کیمیکل سینسز سینٹر ‘اور ایک اسٹارٹ اپ کمپنی’ اوسمو‘ سے ہے ۔ اس تحقیق میں گوگل کے ڈیپ مائنڈ ٹیم کے ماہرین بھی شامل ہیں جو اس بارے ریسرچ کر رہے ہیں کہ جب ہوا میں تیرتے ہوئے بو کے مالیکیول ناک میں داخل ہوتے ہیں تو قوت شامہ کے اعصاب اسے کس طرح دماغ تک پہنچاتے ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ خوشبو اور بدبو کی تقریباً 50 ہزار اقسام کو اپنی یاداشت میں محفوظ رکھ سکتا ہے اور انہیں پہچان سکتا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ خوشبو اور بدبو کی تقریباً 50 ہزار اقسام کو اپنی یاداشت میں محفوظ رکھ سکتا ہے اور انہیں پہچان سکتا ہے۔

اس تحقیق کے نتیجے میں انہوں نے ایک کمپیوٹر ماڈل تیار کیا ہے جو انسان کی طرح کام کرتا ہے اور بو کی مختلف اقسام کو اپنی یاداشت میں محفوظ رکھنے، ان کی شدت کا تعین کرنے اور اس کے متعلق بتانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کمپیوٹر ماڈل میں سیکھنے کی اہلیت بھی ہے۔

اس تحقیق میں شامل جوئل مین لینڈ کہتے ہیں کہ یہ کمپیوٹر ماڈل نہ صرف بو کو شناخت کر سکتا ہے بلکہ نئی خوشبو وغیرہ کی تیاری میں مدد بھی دے سکتا ہے، کیونکہ کیمیکلز کے مالیکیولز جس طرح ترتیب پا کر خوشبو یا بدبو پیدا کرتے ہیں، کمپیوٹر کا لرننگ سسٹم اس ترتیب کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں خوشبو دینے والے نئے مالیکیولز کا نقشہ فراہم کر سکتا ہے جسے ہم نہ صرف خوشبوسازی کے شعبے میں استعمال کر سکتے ہیں بلکہ ایسی بو بھی تیار کر سکتے ہیں جو مچھروں یا دوسرے حشرات الأرض کو انسان سے دور رکھنے میں مدد دے سکے۔

انسانی ناک میں سونگھنے کے 400 کے لگ بھگ اعصاب ہوتے ہیں جو بو کو برقی لہروں میں تبدیل کر کے دماغ کو بھیج دیتے ہیں جو اپنی یاداشت میں موجود خوشبوؤں اور بدبوؤں کے ساتھ موازنہ کرکے بتاتا ہے کہ وہ کس چیز کی ہے۔
انسانی ناک میں سونگھنے کے 400 کے لگ بھگ اعصاب ہوتے ہیں جو بو کو برقی لہروں میں تبدیل کر کے دماغ کو بھیج دیتے ہیں جو اپنی یاداشت میں موجود خوشبوؤں اور بدبوؤں کے ساتھ موازنہ کرکے بتاتا ہے کہ وہ کس چیز کی ہے۔

کمپیوٹر کو تربیت دینے کے لیے اس کے ڈیٹا بیس کو انڈسٹری میں زیر استعمال معروف خوشبوؤں اور بدبوؤں کے پانچ ہزار اقسام کے مالیکیولز کے نقشے اور ان کی خصوصیات کے متعلق معلومات فراہم کیں گئیں۔ اس کمپیوٹر ماڈل کو اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ وہ فراہم کردہ بو کے متعلق بہتر انداز میں بتا سکے۔

کمپیوٹر پروگرام کی کاررکردگی جانچنے کے لیے خوشبوؤں کے متعلق معلومات رکھنے والے 15 افراد کو چنا گیا اور ہر ایک کو خوشبو ؤں کے 400 نمونے اور 55 ایسے الفاظ دیے گئے جن سے خوشبو کی وضاحت ہو سکتی تھی۔ رضاکاروں سے کہا گیا کہ وہ ہر خوشبو کے لیے دیے گئے الفاظ میں سے ایسے لفظ کا انتخاب کریں جس سے خوشبو کی مناسب ترین وضاحت ہو سکے۔ اس کے بعد وہی خوشبو اور الفاظ کمپیوٹر کو فراہم کیے گئے۔

بلی بنیادی طور پر چیزوں کو اس کی بو سے پہچانتی ہے۔ بلی کی ناک میں سونگھنے والے اعصاب 20 کروڑ خوشبوؤں اور بدبوؤں کو شناخت کر سکتے ہیں جب کہ انسان کے قوت شامہ کی استعداد پانچ کروڑ تک ہے۔
بلی بنیادی طور پر چیزوں کو اس کی بو سے پہچانتی ہے۔ بلی کی ناک میں سونگھنے والے اعصاب 20 کروڑ خوشبوؤں اور بدبوؤں کو شناخت کر سکتے ہیں جب کہ انسان کے قوت شامہ کی استعداد پانچ کروڑ تک ہے۔

اس تحقیق میں شامل مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ایملی مے ہو نے بتایا کمپیوٹرکے جوابات رضاکاروں کے مقابلے میں زیادہ درست تھے۔

خوشبو یا بدبو کے سلسلے میں زیادہ تر انسانی ناک پر انحصار کیا جاتا ہے اور ایسے افراد کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جن کی قوت شامہ تیز ہوتی ہے۔ خوشبو یا بو کو شناخت کرنے کی صلاحیت کا تعلق انسانی ناک میں موجود سونگھنے والے اعصاب کی کارکردگی سے ہوتا ہے۔

کچھ افراد کے یہ اعصاب زیادہ کام کرتے ہیں، کچھ کے کم اور ایسے لوگ بھی ہیں،جن کے یہ اعصاب کام ہی نہیں کر تے جس کی وجہ سے انہیں خوشبو آتی ہے اور نہ ہی بدبو۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کتے کی سونگھنے کی قوت انسانوں کے مقابلے میں 1000 سے 10000 گنا زیادہ تک ہے۔ اس خوبی کے پیش نظر اس سے دنیا بھر میں منشیات اور بارود کا کھوج لگانے اور لوگوں کی تلاش کا کام لیا جاتا ہے۔ اب اس سے بعض امراض کی موجودگی کا پتہ لگانے کا کام بھی لیا جانے لگا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کتے کی سونگھنے کی قوت انسانوں کے مقابلے میں 1000 سے 10000 گنا زیادہ تک ہے۔ اس خوبی کے پیش نظر اس سے دنیا بھر میں منشیات اور بارود کا کھوج لگانے اور لوگوں کی تلاش کا کام لیا جاتا ہے۔ اب اس سے بعض امراض کی موجودگی کا پتہ لگانے کا کام بھی لیا جانے لگا ہے۔

اس تحقیق شریک شامل برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ کی کیمسٹری کی پروفیسر جین پارکر کہتی ہیں کہ ہم نے برسوں خوشبو پر کام کیا ہے اور ہمارا زیادہ انحصار ناک پر ہی رہا ہے۔بعض دفعہ کسی چیز کی بو کو مصنوعی طریقے سے تبدیل کر دیا جاتا ہے یا اسے کوئی خوشبو دے دی جاتی ہے۔ خوراک کے شعبے میں ایسی مثالیں عام ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نقلی خوشبو کی شناخت میں انسانی دماغ کو مشکل پیش آ سکتی ہے کیونکہ بو کو اپنی یاداشت میں محفوظ رکھنے کا اس کا طریقہ مختلف ہے۔ دماغ خوشبو یا بو کو زیادہ تر اس کے ماخذ یا اصل کی مطابقت سے یاد رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر مکھن کی خوشبو سونگھنے پر انسانی دماغ اپنی یاداشت میں سے مکھن کی تصویر نکال لاتا ہے، چاہے وہ خوشبو نقلی ہی کیوں نہ ہو۔ جب کہ مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والا کمپیوٹر ماڈل خوشبو کے مالیکیولز کا نقشہ بناتا ہے اور پھر اس کا موازنہ اپنے ڈیٹا بیس میں موجود نقشے سے کر کے درستگی کے ساتھ بتا دیتا ہے کہ یہ اصل ہے یا نقل۔

ٹوکیو میں ویلنٹائن کے موقع پر ایک اسٹور میں دل کی شکل کی پرفیومز اور دیگر اشیا فروخت کی جا رہی ہیں۔
ٹوکیو میں ویلنٹائن کے موقع پر ایک اسٹور میں دل کی شکل کی پرفیومز اور دیگر اشیا فروخت کی جا رہی ہیں۔

خوشبویات کی دنیا میں اصل اور نقل کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔ بعض قیمتی خوشبوؤں کے ایسے نقلی اور سستے برینڈ موجود ہیں جنہیں سونگھ کر شناخت کرنا بہت دشوار ہے۔ لیکن اب انہیں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے ذریعے آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔

ڈیجیٹل فارمیٹ میں خوشبو کو محفوظ کرنے میں کامیابی کے بعد اسے ای میل کے ذریعے منتقل کرنا ممکن ہو جائے گا۔ تاہم ابھی یہ امکان نہیں ہے کہ آپ ای میل یا ٹیکسٹ میسج کھولیں تو خوشبو آنا شروع ہو جائے، کیونکہ خوشبو اصل میں ہوا میں تیرتے ہوئے مالیکولز ہوتے ہیں۔ جن کا ڈیجیٹل نقش تو بھیجا جا سکتا ہے لیکن اس سے دوبارہ مالیکولز بنا کر انہیں ہوا میں منتقل کرنے کی ٹیکنالوجی فی الحال موجود نہیں ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG