بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں کو آزادی مارچ میں شرکت کرنے سے روکنے پر لیویز اہل کاروں اور جمعیت کے کارکنوں کے درمیان تلخ کلامی کے بعد فائرنگ بھی ہوئی تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
بلوچستان کے ضلع دُکّی میں لیویز کے ایک عہدے دار علاﺅالدین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پیر کو مختلف حصوں سے جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے کارکنوں کی گاڑیوں کو تلاشی کیلئے لیویز چیک پوسٹ پر جب روکا گیا تو انہوں نے جھگڑنا شروع کر دیا۔ ایک موقع پر مجمع کو کنٹرول کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کرنا پڑی، تاہم کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔
فضل الرحمان گروپ کے ضلع دُکّی کے رہنما حافظ محمد امین نے وی او اے کو بتایا کہ لیویز چیک پوسٹ پر بعض اہل کاروں نے مارچ کی گاڑیوں کو زبردستی روکا اور کہا کہ انتظامیہ کی پیشگی اجازت کے بغیر مارچ کو جانے نہیں دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ لیویز اہل کاروں نے قافلے کی گاڑیوں پر بندوقیں تان لیں اور دھمکی دی کہ واپس نہ جانے کی صورت میں گاڑیوں کے ٹائر برسٹ کر دیے جائیں گے۔ اس پر کارکن گاڑیوں کے ٹائروں کے آگے بیٹھ گئے اور کہا کہ پہلے انہیں گولی ماری جائے۔
مولوی امین نے بتایا کہ کارکنوں نے لگائی گئی رکاوٹوں کو ہٹا دیا۔ اس دوران لیویز نے ہوائی فائرنگ بھی کی۔ لیکن قافلہ آگے بڑھتا رہا اور اب وہ ڈیرہ غازی خان پہنچ گیا ہے۔
بعض رپورٹس کے مطابق دُکّی کے لیویز حکام نے جے یو آئی فضل الرحمان گروپ کے تقریباً 250 کارکنوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ جبکہ لیویز حکام نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے ان خبروں کی تردید کی ہے۔
بلوچستان کے تقریباً تمام اضلاع سے جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو ئٹہ، لورالائی، ژوب، سبی اور خضدار کے راستوں سے آزادی مارچ میں شرکت کے لئے روانہ ہو گئی ہے۔ ضلع دکّی کے علاوہ کسی بھی علاقے میں قافلوں کو روکنے یا کسی ناخوشگوار واقعہ کی اطلاع نہیں ہے۔