واشنگٹن —
غزا میں قائم حماس کے اسلام پسند گروپ اور صدر محمود عباس کی تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) نے بدھ کے روز ایک مشترکہ اخباری کانفرنس میں متحد ہونے کے بارے میں معاہدے پر عمل درآمد سے اتفاقِ رائے کا اعلان کیا۔
اس اعلان کا مقصد آئندہ پانچ ہفتوں کے اندر اتحادی حکومت تشکیل دینا اور چھ ماہ میں قومی انتخابات کرانا ہے، جس سے قبل فلسطینی پارلیمان میں اعتماد کا ووٹ حاصل کیا جائے گا۔ یہ رپورٹ برطانوی خبر رساں ادارے، رائٹرز نے جاری کی ہے۔
طویل عرصے سے، تنظیم آزادی فلسطین اور شدت پسند حماس اپنی سیاسی دھڑے بندی ختم کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ دہشت گرد تنظیم قرار دی جانے والی، حماس نے 2006ء میں فلسطینی انتخاب جیتا اور 2007ء میں مغرب کے حامی عباس کے وفادار دھڑے سے غزا کی پٹی کا کنٹرول چھینا تھا۔
تاہم، عرب ملکوں کی ثالثی کے نتیجے میں دونوں فریق کے مابین ہونے والے معاہدوں پر عمل درآمد ہونا باقی ہے، جس کے باعث متعدد فلسطینی اپنے رہنماؤں کی طرف سے مفاہمت کے وعدوں پر شک کا اظہار کرتے ہیں۔
حماس کے وزیر اعظم، اسماعیل ہنیہ نے تالیوں کی گونج میں فلسطینی نامہ نگاروں کو بتایا کہ، ’یہ ایک اچھی خبر ہے جو اپنے لوگوں کو بتا رہے ہیں۔ تقسیم کا وقت اب ختم ہوا‘۔
حماس بارہا اسرائیل سے لڑتا رہا ہے، جسے وہ تسلیم کرنے سے انکار کرتا آیا ہے۔
بدھ کے روز کیے جانے والے اس اعلان سے قبل، اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے متحد ہونے کی کوششوں کی رپورٹوں پر عباس کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں اسرائیل کے ساتھ امن یا پھر اُس کے اسلام نواز دشمن کے مابین انتخاب کرنا ہوگا۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں عباس کی فتح پارٹی کو کنٹرول حاصل ہے، اور وہ اسرائیل کے ساتھ مشکلات کے شکار امن کی کوششیں کرتا رہا ہے، جس کی حتمی تاریخ 29 اپریل کو ختم ہو جائے گی۔
اس اعلان کا مقصد آئندہ پانچ ہفتوں کے اندر اتحادی حکومت تشکیل دینا اور چھ ماہ میں قومی انتخابات کرانا ہے، جس سے قبل فلسطینی پارلیمان میں اعتماد کا ووٹ حاصل کیا جائے گا۔ یہ رپورٹ برطانوی خبر رساں ادارے، رائٹرز نے جاری کی ہے۔
طویل عرصے سے، تنظیم آزادی فلسطین اور شدت پسند حماس اپنی سیاسی دھڑے بندی ختم کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ دہشت گرد تنظیم قرار دی جانے والی، حماس نے 2006ء میں فلسطینی انتخاب جیتا اور 2007ء میں مغرب کے حامی عباس کے وفادار دھڑے سے غزا کی پٹی کا کنٹرول چھینا تھا۔
تاہم، عرب ملکوں کی ثالثی کے نتیجے میں دونوں فریق کے مابین ہونے والے معاہدوں پر عمل درآمد ہونا باقی ہے، جس کے باعث متعدد فلسطینی اپنے رہنماؤں کی طرف سے مفاہمت کے وعدوں پر شک کا اظہار کرتے ہیں۔
حماس کے وزیر اعظم، اسماعیل ہنیہ نے تالیوں کی گونج میں فلسطینی نامہ نگاروں کو بتایا کہ، ’یہ ایک اچھی خبر ہے جو اپنے لوگوں کو بتا رہے ہیں۔ تقسیم کا وقت اب ختم ہوا‘۔
حماس بارہا اسرائیل سے لڑتا رہا ہے، جسے وہ تسلیم کرنے سے انکار کرتا آیا ہے۔
بدھ کے روز کیے جانے والے اس اعلان سے قبل، اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے متحد ہونے کی کوششوں کی رپورٹوں پر عباس کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں اسرائیل کے ساتھ امن یا پھر اُس کے اسلام نواز دشمن کے مابین انتخاب کرنا ہوگا۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں عباس کی فتح پارٹی کو کنٹرول حاصل ہے، اور وہ اسرائیل کے ساتھ مشکلات کے شکار امن کی کوششیں کرتا رہا ہے، جس کی حتمی تاریخ 29 اپریل کو ختم ہو جائے گی۔