امریکہ کے سفیر تین مارچ 1958 کو ریاض میں شاہ سعود سے ملاقات کر کے نکلے تو بادشاہ کے ایک قریبی معتمد نے انہیں رکنے کے لیے کہا اور بتایا کہ ایک اہم پیغام انہیں صدر آئزن ہاور تک پہنچانا ہے۔
امریکہ کے سفیر یہ پیغام سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔ شاہی اہل کار نے انہیں بتایا کہ شام میں ایک کامیاب بغاوت کی تیاری مکمل ہو چکی ہے۔ شاہ سعود چاہتے ہیں یہ پیغام جلد از جلد صدر آئزن ہاور کو پہنچا دیا جائے اور وہ اس کے جواب کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ پیغام اسی روز واشنگٹن ڈی سی میں صدر تک پہنچا دیا گیا۔
آئزن ہاور نے فوری طور پر اس پیغام کا جواب دیا کہ وہ اس اہم معاملے پر اعتماد میں لینے پر بادشاہ کے شکر گزار ہیں۔ بظاہر یہ ایک مثبت جواب تھا لیکن دمشق میں امریکہ کے سفارت خانے نے مبینہ سعودی منصوبے پر گہرے شبہات کا اظہار کیا تھا اور بعد میں اس منصوبے کے بارے میں امریکی حکام کے خدشات درست ثابت ہوئے۔
اس منصوبے کے نتیجے میں شام میں بغاوت تو کامیاب نہیں ہو سکی البتہ اس کے چھ برس بعد شاہ سعود کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا تھا۔
دو نومبر 1964 کو شاہ سعود سعودی عرب کے شاہی خاندان کی تاریخ کے وہ واحد حکمران بن گئے جنھیں اقتدار سے بے دخل کیا گیا۔
امریکہ کے صدر کو بھیجے گئے اس پیغام اور شام میں بغاوت کے منصوبے کا شاہ سعود کی اقتدار سے محرومی کا کیا تعلق تھا؟ اسے جاننے کے لیے اس سلسلۂ واقعات پر ایک نظر ڈالنا ہو گی۔
ماضی کا تجربہ اور مستقبل کا خوف
عبد العزیز بن عبدالرحمٰن السعود نے 23 فروری 1932 کو سعودی عرب کی بنیاد رکھی تھی اور دو دہائیوں تک اس ریاست کے حکمران رہے۔
جے ای پیٹرسن کی مرتب کردہ ’ہسٹاریکل ڈکشنری آف سعودی عرب‘ کے مطابق یہ مملکت ایک قبائلی مزاحمت کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی جو ایک خاندانی بادشاہت میں تبدیل ہوگئی۔ اس لیے خاندان میں اقتدار کی دوڑ ایک فطری بات تھی۔
شاہ عبدالعزیز کو اس بات کا ڈر تھا کہ ان کے دونوں بڑے بیٹے سعود اور فیصل اقتدار کی اس دوڑ میں ایک دوسرے کے حریف ہوں گے اور ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی وہ ایک دوسرے کے مقابل آ جائیں گے۔
شاہ عبدالعزیز اپنے دادا کی موت کے بعد اپنے خاندان میں اس کشمکش کو پہلے بھی دیکھ چکے تھے اور اس لیے فکر مند تھے کہ کہیں خاندان کی یہ باہمی چپقلش سلطنت ہی کو برباد نہ کر دے۔
عبدالعزیز السعود کے انتقال کے وقت ان کے 34 بیٹے تھے۔ 1920 میں پیدا ہونے والے سعود ان کی زندہ اولاد میں سب سے بڑے تھے اور باپ کی زندگی میں وہ طویل عرصے تک صوبہ نجد کے حکمران رہے تھے۔
آل سعود کا تعلق بھی چوںکہ نجد سے تھا اس لیے شاہ سعود کو وہاں کے قبائل میں رسوخ حاصل تھا۔ شاہ فیصل اپنے والد کی زندگی میں صوبہ حجاز کے فرماں روا رہے تھے۔ اس کے علاوہ وزارتِ خارجہ سمیت دیگر اہم اتنظامی ذمے داریاں بھی ادا کرتے رہے تھے۔
عبدالعزیز کا انتقال نو نومبر 1953 کو ہوا اور اسی روز طائف میں کم و بیش 100 شہزادوں نے عبدالعزیز کے بڑے بیٹے سعود کو بادشاہ اور ان کے سوتیلے بھائی فیصل بن عبدالعزیز کو ولی عہد بنا دیا۔
نئے بادشاہ سعود نے اپنے بھائی کو نائب وزیر اعظم اور امورِ خارجہ کا وزیر بنایا۔ اس طرح اقتدار کی منتقلی کا یہ پہلا مرحلہ بغیر کسی تنازع کے طے پا گیا۔ البتہ آگے چل کر بدلتے حالات نے اقتدار کو شاہ سعود کے لیے امتحان بنا دیا۔
بدلتی دنیا
دوسری جنگِ عظیم کے بعد عرب خطے میں حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے۔ 1945 میں آرامکو سعودی عرب میں تیل کے ذخائر دریافت کر چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی دنیا میں صنعتی انقلاب اور موٹر گاڑیوں کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے تیل کی طلب بڑھ رہی تھی۔
تیل کے حصول کے لیے دنیا کی بڑی قوتیں برطانیہ اور امریکہ خطے میں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیے تگ و دو میں تھیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین بھی عرب خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششیں تیز کر چکا تھا اور اسی لیے عرب ممالک کی داخلی سیاست امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ کے زیر اثر آ چکی تھی۔
کمزور حکمران
عرب اور سعودی شاہی خاندان کی تاریخ پر کئی کتابوں کے مصنف روسی تاریخ دان الیگزی ویسی لیئو نے اپنی تصنیف ’ہسٹری آف سعودی عرب‘ میں تحریر کیا ہے کہ شاہ سعود اپنے والد ابن سعود کی طرح مضبوط شخصیت نہیں رکھتے تھے اور ماضی میں رہتے تھے۔
ان کے دربار میں پانچ ہزار افراد شامل تھے۔ روایتی بادشاہوں کی طرح ان کا ایک بڑا حرم تھا اور وہ اپنے عیش و آرام کے لیے ملک کے خزانے کا بے دریغ استعمال کرتے تھے۔
شاہ عبدالعزیز کے انتقال کے بعد شاہی خاندان میں گروہ بندی تو ہو گئی تھی البتہ شاہ سعود کے اس طرزِ حکمرانی نے تقسیم کو مزید ہوا دی۔
ادھر مصر میں 1952 کی دہائی میں شاہی خاندان کا تختہ الٹے جانے کے بعد عرب قوم پرستی کے عروج کا دور آ چکا تھا اور جمال عبدالناصر عرب دنیا میں ایک انتہائی مقبول رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے۔
لیکن سوویت یونین کی جانب جھکاؤ اور سوشلسٹ نظریات کی وجہ سے سعودی عرب سمیت دیگر عرب شاہی خاندان ناصر کو اپنے لیے ممکنہ خطرہ تصور کرتے تھے۔
حلیف اور حریف
شاہ سعود اور جمال عبدالناصر کے تعلقات ابتدائی طور پر اچھے تھے۔ الیگزی ویسی لیئو کے نزدیک اس کی وجہ یہ تھی کہ مصر نے نہرِ سوئز کے بحران سے قبل براہِ راست امریکہ کی مخالفت سے گریز کیا تھا۔
سعودی عرب میں تیل کی دریافت کے بعد سے سعودی شاہی خاندان اور برطانیہ میں دوریاں پیدا ہو رہی تھیں جب کہ امریکہ پر ان کے معاشی انحصار میں اضافہ ہو رہا تھا۔
دوسری جانب مصر برطانیہ اور اردن کے حکمران ہاشمی خاندان دونوں ہی کے خلاف تھا۔ اسی لیے شاہ سعود نے مصر میں جمال عبدالناصر کی مقبول قیادت سے اچھے تعلقات رکھنے کی حکمتِ عملی اختیار کی تھی۔
ہاشمی خاندان آلِ سعود کا روایتی حریف تھا۔ آلِ سعود کے حکمران بننے سے قبل شریفِ مکہ کا تعلق ہاشمی خاندان سے ہوا کرتا تھا اور ہاشمی خاندان کو شکست دے کر ہی آلِ سعود اس خطے کے حکمران بنے تھے۔
نہرِ سوئز کے بحران کے دوران سعودی عرب نے مصر کی فوجی امداد بھی کی۔ جمال عبدالناصر نے نہر سوئز قومی تحویل میں لے لی تھی جس سے بحران نے جنم لیا تھا۔ اس کی وجہ سے مصر اسرائیل، فرانس اور برطانیہ سے تصادم کے قریب پہنچ گیا تھا البتہ امریکہ کی سفارتی کوششوں سے یہ تصادم ٹل گیا تھا۔ اس دوران سعودی عرب نے برطانیہ اور فرانس کو تیل کی برآمد روک دی تھی جس کی وجہ سے ان ممالک سے سعودی عرب کے سفارتی تعلقات میں کشیدگی آ گئی تھی۔
سعودی عرب نے نہرِ سوئز کے بحران میں مصر کی مدد کے لیے فوج بھی بھیجی تھی اور تنازع کے خاتمے کے بعد وہ فوج مصر میں زیرِ تربیت بھی رہی۔
شاہی خاندان کی تشویش
شاہ سعود کے مصر کے جمال عبدالناصر کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پر سعودی شاہی خاندان اور سعودی عرب کے با اثر علما میں تشویش بڑھ رہی تھی۔
مصر کے ریڈیو پر مغربی ممالک کے طرزِ عمل پر تنقید کے لیے چلنے والی پروپیگنڈا مہم میں بادشاہتوں کی مخالفت کا عنصر بھی موجود تھا۔
نہرِ سوئز کے تنازع میں کامیابی کے بعد سعودی عرب میں بھی جمال عبدالناصر کی مقبولیت بڑھ رہی تھی اور اب شاہ سعود کو بھی اس پر تشویش ہو رہی تھی۔
’ہسٹری آف سعودی عرب‘ کے مطابق مئی 1955 میں بعض سعودی افسران کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک سازش کا انکشاف بھی ہوا تھا۔
یہ وہ سعودی افسران تھے جو سوئز کینال بحران کے دوران مصر گئے تھے اور وہاں زیرِ تربیت بھی رہے تھے۔ مبینہ طور پر اس سازش میں انہیں مصری افسران کی مشاورت بھی حاصل تھی۔
اس سے قبل سعودی عرب کے تیل کے سب سے زیادہ ذخائر رکھنے والے علاقے ظہران میں مزدوروں کی تحریک اور ہڑتالوں کے واقعات بھی سعودی شاہی خاندان کے ذہن میں تازہ تھے۔
عراق اور اردن میں بھی ایسی ہی تحریکیں سر اٹھا رہی تھیں جو آلِ سعود کی مصر سے متعلق تشویش میں اضافہ کر رہی تھیں۔
آئزن ہاور ڈاکٹرائن
ماہرین کے مطابق نہرِ سوئز کے بحران کے بعد سے جمال عبد الناصر کے سوویت یونین کی طرف جھکاؤ میں مزید اضافہ ہوا تھا۔ امریکہ عرب قوم پرستی کی بڑھتی ہوئی تحریک اور خطے میں سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے رسوخ کو روکنا چاہتا تھا۔
اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے جنوری 1957 میں امریکی صدر آئزن ہاور کا ڈاکٹرائن سامنے آیا جس کے مطابق سوئز کینال بحران کے بعد مشرقِ وسطیٰ سے فرانس اور برطانیہ کا اثر و رسوخ ختم ہونے کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہو گیا۔
اس ڈاکٹرائن میں واضح کیا گیا تھا کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ کے آزاد ممالک کی جغرافیائی حدود کو اپنی مسلح افواج کے ذریعے ’بین الاقوامی کمیونزم کے زیرِ اثر کسی ملک‘ کے خلاف تحفظ فراہم کرے گا۔
تیل کی صنعت میں باہمی اشتراک اور اسلامی دنیا کے لیے سعودی عرب کی اہمیت کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں شاہ سعود امریکہ کے لیے موزوں ترین اتحادی تھے۔ جنوری 1957 میں صدر آئزن ہاور نے شاہ سعود کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی۔
مصر، اردن اور شام نے آئزن ہاور کے ڈاکٹرائن کی مخالفت کی تھی اور کسی بھی غیر ملکی طاقت کا اثر قبول نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
شاہ سعود نے امریکہ کے دورے کے موقع پر امریکی قیادت کو ان ممالک کے تحفظات سے آگاہ کرنے کا عندیہ دیا البتہ امریکہ جانے کے بعد انہوں نے اس معاملے پر بات کرنے کے بجائے امریکہ سے جنگی ساز و سامان اور سعودی پائلٹس کی تربیت کے لیے یقین دہانیاں حاصل کیں۔
اس کے علاوہ امریکہ کو دمام کی بندرگاہ کی تعمیرِ نو اور 15 ہزار نوجوانوں کی باضابطہ فوج بنانے کے لیے قرضے فراہم کرنے پر بھی قائل کرلیا۔
اس کے بدلے میں شاہ سعود نے ظہران میں امریکی فضائیہ کو ہوائی اڈے کی لیز دینے اور دیگر عرب ممالک کو بھی مشرقِ وسطیٰ سے متعلق صدر آئزن ہاور کے ڈاکٹرائن پر قائل کرنے کا وعدہ کیا۔
مصر کا انکار
امریکہ کے دورے سے واپسی پر شاہ سعود کو اندازہ ہوا کہ عرب ممالک میں آئزن ہاور ڈاکٹرائن کی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے۔ 24 سے 27 فروری 1957 کو قاہرہ میں سعودی عرب، مصر، شام اور اردن کے سربراہان کا اجلاس ہوا۔
اس اجلاس میں شاہ سعود نے آئزن ہاور ڈاکٹرائن کی حمایت کی اور اردن نے بھی ان کی تائید کی۔ لیکن جمال عبدالناصر اور شام کے صدر شکری القوتلی نے غیر جانب داری کی پالیسی ترک کر کے امریکہ کے کیمپ میں جانے سے انکار کر دیا۔
ناصر نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ امریکہ سے کسی سیاسی شرط کے بغیر فوجی تعاون حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مصر، شام کے متفقہ مؤقف اور رائے عامہ کی وجہ سے شاہ سعود کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا۔
شاہ فیصل کی حیات پر کتاب کے مصنف جیرالڈ ڈی گوری نے لکھا ہے کہ درون خانہ صورتِ حال مختلف تھی۔ آلِ سعود اور ہاشمی خاندان ایک دوسرے کے حریف رہے تھے لیکن عرب دنیا میں انقلابی تحریکوں کی مقبولیت نے انہیں حلیف بنا دیا تھا۔
اردن کے شاہ حسین نے جب 1957 میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعظم سلیمان نابلوسی کی حکومت ختم کی تو سعودی عرب نے اردن کو مالی امداد فراہم کی اور نہرِ سوئز کی جنگ ہونے تک اردن میں اپنی فوجیں بھی تعینات رکھی تھیں۔
اب رفتہ رفتہ سعودی عرب اور مصر کے درمیان خطے میں طاقت کی رسہ کشی بڑھنے لگی۔ اردن کے شاہ حسین نے ریاض کا دورہ کیا اور سعودی عرب، عراق اور اردن کا اتحاد بنانے کی تجویز پیش کی۔
شاہ سعود نے یہ تجویز فوری طور پر تسلیم بھی کر لی اور اس کے لیے عراق کا دورہ بھی کیا لیکن یہ اتحاد بن نہیں سکا۔
مبصرین کے مطابق شاہ سعود اس وقت کھل کر مصر کی مخالفت نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ ایسے کسی اقدام کی صورت میں ان کا اپنا اقتدار خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس لیے انہوں نے قاہرہ کانفرنس کے فیصلوں کے مطابق سرکاری بیانات کی حد تک غیر جانب دار رہنے کی پالیسی کی حمایت جاری رکھی۔
متحدہ عرب جمہوریہ کا قیام
فروری 1958 میں مصر اور شام نے متحدہ عرب جمہوریہ کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اس ریاست کے قیام کے اعلان پر تقریباً سب ہی عرب ممالک میں خوشی کا اظہار کیا گیا۔ لیکن سعودی عرب، اردن اور عراق کے شاہی خاندانوں کی تشویش مزید بڑھ رہی تھی۔
متحدہ عرب جمہوریہ کے قیام کے بعد اردن اور عراق کے شاہی خاندانوں نے ایک فیڈریشن بنانے کا اعلان کیا۔ ان دونوں ممالک میں ہاشمی خاندان کی حکومت تھی۔ اس لیے سعودی عرب اس خاندان سے اپنی دیرینہ مخاصمت کی وجہ سے اس فیڈریشن میں شامل نہیں ہوا۔
تاریخ دان اور مبصر بروس رڈل کے مطابق شاہ سعود کے لیے صورتِ حال اس لیے مزید تشویش ناک تھی کہ انہیں عرب دنیا میں جمال عبدالناصر اور ان کی متعارف کردہ اصلاحات کی مقبولیت کی وجہ سے اپنے اقتدار کی فکر لاحق تھی۔
لیکن شاہ سعود ناصر کے خلاف اردن اور عراق کی فیڈریشن کا حصہ بھی نہیں بن سکتے تھے اور داخلی سطح پر کرپشن اور ریاستی مالی وسائل کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے ان کے اپنے ہی ملک میں ان کی مخالفت روز بہ روز بڑھ رہی تھی۔
آخری کوشش
ان مشکل حالات سے نکلنے کے لیے شاہ سعود نے ایک آخری کوشش کی۔ بروس رڈل لکھتے ہیں کہ شاہ سعود نے امریکی سفیر کے ذریعے صدر آئزن ہاور کو یہ پیغام پہنچایا کہ چند ہی روز میں شام میں ایک کامیاب فوجی بغاوت ہونے والی ہے۔
صدر آئزن ہاور نے اپنے سوانح حیات میں لکھا ہے کہ شام میں تعینات امریکہ کے سفیر اور سی آئی اے کی رائے یہ تھی کہ شاہ سعود خود ایک سازش کے جال میں پھنس گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کی رہی سہی ساکھ بھی جاتی رہے گی۔
اسٹنگ آپریشن
شاہ سعود جس منصوبے کو اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے، وہ ان کے اپنے اقتدار کے خاتمے کا سبب بنا۔ پانچ مارچ 1958 کو جمال عبدالناصر نے دمشق میں اپنی تقریر میں بتایا کہ متحدہ عرب جمہوریہ سے شام کو نکالنے کے لیے شاہ سعود نے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا۔
شام میں ناصر کے انٹیلی جنس چیف عبد الحمید سراج نے اعتراف کیا کہ سعودیوں نے انہیں ناصر کے جہاز میں بم لگانے کے لیے دو کروڑ برطانوی پاؤنڈ رشوت دی تھی۔
مصری حکومت نے ثبوت کے طور پر تین چیک اخبارات کو فراہم کر دیے جو مبینہ منصوبہ سازوں کو سعودیوں کی جانب سے دیے گئے تھے۔
جمال عبدالناصر نے شاہ سعود کو عربوں کا دشمن اور مغرب کی کٹھ پتلی قرار دیا اور ان کے خلاف باقاعدہ پروپیگنڈا مہم کا آغاز کر دیا۔ بروس رڈل کا کہنا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک اسٹنگ آپریشن تھا اور شاہ سعود جمال کے دام میں آ گئے تھے۔
اس سازش کے منظرِ عام پر آنے کے بعد شاہ سعود کی مخالفت میں شدت آ گئی۔ عوامی سطح پر بھی شاہ سعود کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں جب کہ سعودی عرب کے شاہی خاندان اور بااثر مذہبی علما کی رائے یہ تھی کہ بادشاہ کے اختیارات کو محدود کر دیا جائے اور انتظامِ حکومت ولی عہد اور وزیرِ اعظم شاہ فیصل کے سپرد کر دیا جائے۔
شاہ سعود نے صورتِ حال تبدیل ہوتی دیکھی تو خود کو ریاض کے ناصریہ شاہی محل میں محصور کر لیا۔
’بادشاہ ہیں مگر حکمران نہیں‘
شہزادہ فیصل کو ایک تجربہ کار سیاست دان تسلیم کیا جاتا تھا۔ شاہ سعود کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے طرزِ حکومت اور کرپشن پر جن لوگوں کو تحفظات تھے ان میں سے زیادہ تر شہزادہ فیصل کے حامی تھے اور اب انھیں اقتدار شاہ فیصل کے ہاتھ میں آتا نظر آ رہا تھا۔
سعودی شہزادوں اور علما کی رائے تھی کہ شاہ سعود کو تخت سے اتار دیا جائے لیکن اس کے نتیجے میں خانہ جنگی کا خدشہ تھا۔ فیصل کی اپنی رائے یہ تھی کہ بادشاہ سے تمام اہم انتظامی اختیارات لے لیے جائیں البتہ انہیں منصب پر برقرار رکھا جائے۔
شاہ سعود اپنے اختیارات سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔ 24 مارچ 1958 کو اس مسئلے پر ریاض میں شاہی خاندان کا اجلاس ہوا جس میں شاہ سعود سے انتظامی فیصلوں، داخلی و خارجی امور اور خزانے سے متعلق تمام اختیارات لے کر شہزادہ فیصل کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اسی روز شہزادہ فہد بن عبدالعزیز نے چند دیگر شہزادوں کے ساتھ ناصریہ کے شاہی محل میں جا کر شاہ سعود کو فیصلے سے آگاہ کر دیا کہ وہ بادشاہ تو رہیں گے لیکن حکمرانی ولی عہد شاہ فیصل کی ہو گی۔
اس صورتِ حال میں شاہ سعود نے امریکہ سے مدد حاصل کرنے کی کوشش بھی کی البتہ سعودی شاہی خاندان میں اپنی بڑھتی ہوئے مخالفت کے پیشِ نظر انہیں یہ فیصلہ قبول کرنا پڑا۔
شاہ سعود نے 31 مارچ 1958 کو حکم نامہ جاری کیا جس کے مطابق تمام اختیارات وزارتی کونسل یعنی ’مجلس الوکلا‘ کو منتقل کر دیے گئے اور شہزادہ فیصل کو سعودی عرب کی مسلح افواج کا سربراہ بھی بنا دیا گیا۔
شاہ فیصل نے اختیارات ملنے کے بعد معاشی اصلاحات شروع کر دیں اور ایک غیر جانب دارانہ خارجہ پالیسی اختیار کرنے کا اعلان بھی کیا۔
شاہ سعود کی حکمرانی کے لیے جدوجہد
مؤرخ الیگزی ویسی لیئو کے مطابق شاہ سعود نے اختیارات شاہ فیصل کو منتقل تو کر دیے تھے لیکن انہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔
اختیارات ولی عہد شہزادہ فیصل کو منتقل کرنے کے بعد شاہ سعود سوئٹزر لینڈ چلے گئے۔ اسی دوران 1959 میں شاہ سعود نے مصر کا دورہ کیا اور جس جمال عبدالناصر کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنانے کی وجہ سے وہ مشکلات کا شکار ہوئے تھے اسی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
اختیارات منتقل ہونے کے باوجود شاہ سعود، ان کے اہلِ خانہ اور اتحادیوں کے پاس بے پناہ سرمایہ تھا۔ سعودی عرب واپس آ کر شاہ سعود نے 1960 کا پورا سال بدو قبائل کے زعما سے ملاقاتوں اور انہیں تحائف دینے میں گزارا۔
انہوں نے علما سے رابطے بڑھا دیے اور مسجد حرام اور مسجد نبوی کے علاوہ دنیا بھر میں مساجد کے لیے عطیات دینا شروع کر دیے۔
’لبرل شہزادے‘
شاہ فیصل کو اختیارات دلانے میں شاہی خاندان کے روایت پسند شہزادوں اور علما کا بنیادی کردار تھا۔ 1950 کی دہائی میں عرب قوم پرستی کے زیرِ اثر سعودی شاہی خاندان میں بعض شہزادے سیاسی نظام کی آزادی کے حامی ہو گئے تھے۔ انہیں ’الامراء الأحرار‘ یا ’لبرل شہزادے‘ کہا جاتا تھا۔ ان کی قیادت شہزادہ طلال بن عبدالعزیز کر رہے تھے۔
شاہ سعود نے اپنے اختیارات دوبارہ حاصل کرنے کی کوششوں میں ان لبرل شہزادوں کی حمایت بھی حاصل کر لی تھی۔
دسمبر 1960 تک شاہ سعود کو اندازہ ہوا کہ اب ان کی گرفت ایک مرتبہ پھر مضبوط ہو گئی ہے۔ اس لیے انہوں نے شہزادہ فیصل کے بنائے گئے بجٹ کی منظوری دینے سے انکار کر دیا۔
شاہ سعود کے اس اقدام سے پیدا ہونے والے بحران کے نتیجے میں شاہ فیصل کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور شاہ سعود نے لبرل شہزادوں کے گروپ کے نمایاں افراد کو اپنی کابینہ میں شامل کر لیا۔
شاہ سعود کو جب انتظامی اختیارات دوبارہ ملے تو ملک کی معاشی صورتِ حال بہتر ہو چکی تھی اور تیل سے ہونے والی آمدن میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔
شاہ سعود نے جمال عبدالناصر کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن جمال عبدالناصر کے عزائم برقرار تھے اور سعودی حکومت سے ان کی مخاصمت ختم نہیں ہوئی تھی۔
جب 28 ستمبر 1961 کو شام نے متحدہ عرب جمہوریہ سے علیحدگی اختیار کی تو سعودی عرب نے شام کی نئی حکومت کو فوری طور پر تسلیم کر لیا۔
اس کے بعد مصر اور سعودی عرب میں الزامات کی جنگ شروع ہو گئی۔ 1962 تک دونوں کے تعلقات اس قدر کشیدہ ہو گئے کہ سعودی حکومت نے مصر کا بطور تحفہ دیا گیا غلافِ کعبہ بھی لینے سے انکار کر دیا۔
یمن کی جنگ
یمن میں قائم امام احمد کی حکومت کو سعودی عرب کی حمایت حاصل تھی۔ 19 ستمبر 1962 کو جب امام احمد کا انتقال ہوا تو ولی عہد محمد البدر یمن کے بادشاہ بنے۔
لیکن اس کے ایک ہفتے بعد ہی بادشاہت کے مخالف فوجی افسران کے گروہ نے عبداللہ سلال کی قیادت میں بغاوت کر دی اور یمن کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کر دیا جس کے بعد خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا۔
اس تنازع میں مصر نے یمن میں انقلابیوں کا ساتھ دیا اور یمن کی سرحد سے ملحقہ کئی سعودی آبادیوں اور دیہات وغیرہ کو مصری فضائیہ نے نشانہ بنایا۔
اس وقت تک شاہ سعود کی صحت بھی خراب ہو چکی تھی اور یمن میں مصر کی کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے شاہی خاندان نے ایک بار پھر بادشاہ کو مجبور کیا کہ وہ اختیارات شاہ فیصل کو منتقل کر دیں۔
شاہ سعود کی واپسی
اکتوبر 1962 میں شاہ سعود نے شہزادہ فیصل کو وزیرِ اعظم مقرر کردیا اور اپنے علاج کے لیے یورپ کے مختلف ممالک کے سفر پر چلے گئے۔
شاہ سعود جب 1963 میں وطن واپس لوٹے تو بہت کچھ تبدیل ہو چکا تھا اور فیصل ایک مقبول حکمران بن چکے تھے۔ اس دوران فیصل نے شاہ سعود کے بیٹوں اور حامیوں کو اہم عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔ اس کے علاوہ سعودی فوج کی تربیت اور مراعات میں اضافہ کر کے اس میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا تھا۔
فیصل یکم جنوری 1963 کو ملک میں مارشل لا نافذ کر چکے تھے اور شاہ سعود کو ستمبر 1963 میں اسی شرط پر وطن واپسی کی اجازت دی تھی کہ وہ اب حکومتی امور میں مداخلت نہیں کریں گے۔
شاہ سعود نے واپس آنے کے بعد 22 مارچ 1964 کو اپنے تمام اختیارات بحال کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ شہزادہ فیصل نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور نیشنل گارڈز کو بھی طلب کرلیا۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم نے 25 مارچ کو شاہ سعود کو تجویز دی کہ وہ ولی عہد کی بات مان کر اختیارات کا تقاضا ترک کر دیں۔ لیکن بادشاہ نے نہ صرف یہ بات ماننے سے انکار کیا بلکہ فوج میں اپنے حامی دستوں کو مدد کے لیے بلا لیا۔
بادشاہ کے اس اقدام کے جواب میں شہزادہ فیصل کے حکم پر نیشنل گارڈ نے شاہی محل کا محاصرہ کر لیا۔ شاہ سعود کے پاس مقابلے کی طاقت نہیں تھی۔
علما کا فتوی
حالات کی سنگینی بڑھ رہی تھی۔ شاہ فیصل پہلے ہی شاہی خاندان اور مذہبی علما میں مقبولیت حاصل کر چکے تھے۔ 29 مارچ 1964 کو سعودی عرب کے نمایاں علما نے فتویٰ جاری کیا کہ شاہ سعود اب حکومت کرنے کے اہل نہیں رہے۔
اس فتوے کے بعد وزارتی کونسل نے شاہی گارڈز کو شاہ سعود کے کنٹرول سے نکال کر وزارتِ دفاع اور داخلہ کے ماتحت کر دیا۔
اس کے علاوہ بادشاہ کی کئی مراعات ختم کر دی گئیں اور تمام انتظامی اختیارات ولی عہد شہزادہ فیصل کے حوالے کر دیے گئے۔ شاہی خاندان کے 68 شہزادوں نے ایک بیان پر دستخط کر کے اقتدار فیصل کو منتقل کرنے کی حمایت کردی۔
وزارتی کونسل کے ان فیصلوں کے بعد شاہ فیصل نے ریاض میں قبائلی سرداروں سے ملاقاتوں کو سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ شاہی خاندان، قبائلی عمائدین اور علما اب یہ رائے دے رہے تھے کہ سعود کو سیاست و حکومت سے مکمل علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے۔
اس سلسلے میں مذہبی علما اور شاہی خاندان کے درمیان مشاورت بھی ہوئی اور بالآخر دو نومبر 1964 کو شاہ سعود کو تخت سے بے دخل کر کے شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز کو بادشاہ بنا دیا گیا۔
اقتدار سے دستبرداری کے بعد شاہ سعود کثیر سرمائے اور اپنے 53 بیٹوں اور 54 بیٹیوں میں سے بیشتر کے ساتھ یونان منتقل ہو گئے۔
بادشاہت کے بعد
منصب شاہی سے علیحدگی کے بعد بھی شاہ سعود متحرک رہے اور انہوں نے 1966 میں کچھ عرصہ قاہرہ میں بھی گزارا۔ اس دوران وہ شاہ فیصل کے خلاف مصر کی پروپیگنڈا مہم کا حصہ بھی بنے اور اپنی اقتدار سے محرومی کے لیے امریکہ کو بھی ذمے دار قرار دیتے رہے۔
ان کے بعض حامیوں اور سعودی عرب کے لبرل شہزادے کہلانے والے گروپ نے شاہ فیصل کی حکومت گرانے اور اس کی مخالفت کی کوششیں جاری رکھیں۔ لیکن 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد خطے کے حالات تیزی سے تبدیل ہوئے اور شاہ فیصل کی مخالفت میں کسی کامیابی کے امکانات بھی معدوم ہوتے چلے گئے۔
آخری ایام میں شاہ سعود کی خواہش تھی کہ انہیں سعودی عرب واپس آنے کی اجازت دی جائے لیکن اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی اور 23 فروری 1969 کو حرکتِ قلب بند ہونے سے یونان میں ان کا انتقال ہو گیا۔
شاہ فیصل نے خصوصی طیارہ یونان روانہ کیا اور سابق بادشاہ کی میت کو مکہ لا کر نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور ریاض میں شاہی خاندان کے قبرستان میں ان کی تدفین کر دی گئی۔ اس طرح سعودی عرب کی تاریخ میں اقتدار کی کشمکش کا ایک دور ختم ہوا۔