کراچی ۔۔۔ سندھ کی سوہنی مٹی کی محبت میں گندھی اور سچے سروں میں ڈھلی آواز کی مالک، عابدہ پروین کا نام پاکستان میں ہی نہیں بھارت میں بھی کسی نے نہ سنا ہو۔ ایسا ہو نہیں سکتا۔ صوفیانہ کلام کو ’محبت پھیلانے‘ کا ذریعہ سمجھ کر دل سے گانے والی عابدہ پروین کی آواز سننے والوں کے دلوں کو اسیر کرنے کا فن جانتی ہے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ کراچی میں ان کی ’گیارہ سی ڈیز پر مشتمل باکس سیٹ‘ کے لانچنگ فنکشن میں بڑی بڑی اور جانی مانی ہستیاں کھچی چلی آئیں۔
نومبر کی خنک بھری شام میں ساحل کے کنارے شان سے کھڑے ’مہٹہ پیلس‘ کی تاریخی عمارت میں عابدہ پروین کی 20 سال کی محنت کا نچوڑ ’شاہ جو راگ‘ کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش ہوا۔۔۔اور اس مہارت سے پیش ہوا کہ دیکھنے اور سننے والے عش عش کر اٹھے۔ یہاں تک کہ یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہوگیا تھا کہ لوگ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام سن کر جھوم رہے ہیں یا عابدہ پروین کی آواز سن کر۔
عابدہ پروین کا کارنامہ حیات جب بھی لکھا جائے گا اس میں یہ ذکر ضرور ہوگا کہ عابدہ پروین، شاہ لطیف کے کلام کو عام کرنے والا سب سے بڑا اور آخری نام ہے۔ عابدہ نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کے منتخب کلام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے اس کا اردو، انگلش اور رومن زبانوں میں ترجمہ کروایا ہے۔
لانچنگ کے موقع پر ہونے والی اس محفل موسیقی کا ایک مقصد سندھ کے ثقافتی ورثے کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ بنانا بھی تھا۔ اس لئے اس کام کو بخوبی انجام دینے والے ٹرسٹ ’پری وینشن آف دی ہیری ٹیج آف سندھ‘ کے سربراہ عبدالحمید آخوند خود بھی تقریب میں موجود رہے۔ ان کے علاوہ، موہٹہ پیلس میوزیم اور ’ڈان میڈیا گروپ‘ کے روح رواں حمید ہارون اور کراچی کے تجارتی حلقوں کا ایک بڑا نام، یعنی جہانگیر صدیقی بھی موجود تھے۔
حمید ہارون نے اپنی تقریر میں راگوں کے متعلق تبادلہٴخیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’شاہ لطیف نے سترہویں صدی کے آخر اور اٹھارویں صدی کے شروع میں جو شاعری کی وہ راگوں پر مبنی تھی اور اسی وقت یہ طے ہوگیا تھا کہ یہ شاعری گائی بھی راگوں کی بندش میں جائے گی۔ شاہ لطیف کے صوفیانہ کلام کو مزار پر موجود فقیروں نے لوگوں تک پہنچایا، اور یوں، اس شاعری کا ریکارڈ محفوظ ہوسکا۔‘
عابدہ پروین نے اپنے البم ’شاہ جو راگ‘ میں 32اشعار کو اپنی آواز میں پرویا ہے۔ ان میں سے دو شاہ لطیف کے مشہور زمانہ مجموعے’شاہ جو رسالو‘ سے لئے گئے ہیں۔ اندرون سندھ اس کلام کو سروں پر اٹھایا جاتا ہے۔
انیس سو ستر کے عشرے میں الن فقیر نے شاہ لطیف سے منسوب ’وائی‘ میں جدت پیدا کی اور عابدہ پروین نے اسے دوبارہ ایک ’کلاس‘ کا درجہ عطا کیا۔ اب یہی کلاس ’شاہ جو راگ‘ کی شکل میں پروسی گئی ہے۔ عابدہ نے ’وائی‘ کو نوجوانوں تک پہنچانے کے لئے اس میں جدت طرازی سے کام لیا ہے۔
محفل موسیقی میں عابدہ پروین نے اپنے مخصوص انداز گائیکی سے سماں باندھ دیا۔ ’تیرے عشق نچایا۔۔’ ’ارے لوگوں‘۔۔ ’منجھے رانی کہہ‘ اور ’دم مست قلندر مست مست‘ پر لوگ جھوم جھوم اٹھے۔
عابدہ کے ساتھ جن دیگر فنکاروں نے اس شام کو یادگار بنانے میں مدد دی ان میں عابدہ پروین کی شاگرد صنم ماروی، سندھ کے گلوگاروں میں نمایاں حیثیت رکھنے والی حمیرا چنہ، ریشماں، دلشاد مرزا، مظہر حسین، ذوالفقار علی، جمال الدین فقیر، بھٹ شاہ اور سچل سرمست سے آئے فقیر جن میں استاد نیاز کے تین اور الن فقیر کے ایک بیٹے بھی شامل تھے۔
تقریب کے مہمانوں میں سابق وزیراعلیٰ سندھ، غوث علی شاہ، سابق سفیر شیری رحمٰن، نجم الدین شیخ، ٹپو جویری، نگہت میر، نفیسہ شاہ، دپیک پاروانی، مظہر صدیقی، سلیم میمن، اعجاز مرزا، مصطفی قریشی، روبینہ قریشی اور عابدہ پروین کے ذاتی معالج ڈاکٹر اسد پٹھان اور ان کی اہلیہ مونا قاضی پٹھان شامل تھے۔
نومبر کی خنک بھری شام میں ساحل کے کنارے شان سے کھڑے ’مہٹہ پیلس‘ کی تاریخی عمارت میں عابدہ پروین کی 20 سال کی محنت کا نچوڑ ’شاہ جو راگ‘ کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش ہوا۔۔۔اور اس مہارت سے پیش ہوا کہ دیکھنے اور سننے والے عش عش کر اٹھے۔ یہاں تک کہ یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہوگیا تھا کہ لوگ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام سن کر جھوم رہے ہیں یا عابدہ پروین کی آواز سن کر۔
عابدہ پروین کا کارنامہ حیات جب بھی لکھا جائے گا اس میں یہ ذکر ضرور ہوگا کہ عابدہ پروین، شاہ لطیف کے کلام کو عام کرنے والا سب سے بڑا اور آخری نام ہے۔ عابدہ نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کے منتخب کلام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے اس کا اردو، انگلش اور رومن زبانوں میں ترجمہ کروایا ہے۔
لانچنگ کے موقع پر ہونے والی اس محفل موسیقی کا ایک مقصد سندھ کے ثقافتی ورثے کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ بنانا بھی تھا۔ اس لئے اس کام کو بخوبی انجام دینے والے ٹرسٹ ’پری وینشن آف دی ہیری ٹیج آف سندھ‘ کے سربراہ عبدالحمید آخوند خود بھی تقریب میں موجود رہے۔ ان کے علاوہ، موہٹہ پیلس میوزیم اور ’ڈان میڈیا گروپ‘ کے روح رواں حمید ہارون اور کراچی کے تجارتی حلقوں کا ایک بڑا نام، یعنی جہانگیر صدیقی بھی موجود تھے۔
حمید ہارون نے اپنی تقریر میں راگوں کے متعلق تبادلہٴخیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’شاہ لطیف نے سترہویں صدی کے آخر اور اٹھارویں صدی کے شروع میں جو شاعری کی وہ راگوں پر مبنی تھی اور اسی وقت یہ طے ہوگیا تھا کہ یہ شاعری گائی بھی راگوں کی بندش میں جائے گی۔ شاہ لطیف کے صوفیانہ کلام کو مزار پر موجود فقیروں نے لوگوں تک پہنچایا، اور یوں، اس شاعری کا ریکارڈ محفوظ ہوسکا۔‘
عابدہ پروین نے اپنے البم ’شاہ جو راگ‘ میں 32اشعار کو اپنی آواز میں پرویا ہے۔ ان میں سے دو شاہ لطیف کے مشہور زمانہ مجموعے’شاہ جو رسالو‘ سے لئے گئے ہیں۔ اندرون سندھ اس کلام کو سروں پر اٹھایا جاتا ہے۔
انیس سو ستر کے عشرے میں الن فقیر نے شاہ لطیف سے منسوب ’وائی‘ میں جدت پیدا کی اور عابدہ پروین نے اسے دوبارہ ایک ’کلاس‘ کا درجہ عطا کیا۔ اب یہی کلاس ’شاہ جو راگ‘ کی شکل میں پروسی گئی ہے۔ عابدہ نے ’وائی‘ کو نوجوانوں تک پہنچانے کے لئے اس میں جدت طرازی سے کام لیا ہے۔
محفل موسیقی میں عابدہ پروین نے اپنے مخصوص انداز گائیکی سے سماں باندھ دیا۔ ’تیرے عشق نچایا۔۔’ ’ارے لوگوں‘۔۔ ’منجھے رانی کہہ‘ اور ’دم مست قلندر مست مست‘ پر لوگ جھوم جھوم اٹھے۔
عابدہ کے ساتھ جن دیگر فنکاروں نے اس شام کو یادگار بنانے میں مدد دی ان میں عابدہ پروین کی شاگرد صنم ماروی، سندھ کے گلوگاروں میں نمایاں حیثیت رکھنے والی حمیرا چنہ، ریشماں، دلشاد مرزا، مظہر حسین، ذوالفقار علی، جمال الدین فقیر، بھٹ شاہ اور سچل سرمست سے آئے فقیر جن میں استاد نیاز کے تین اور الن فقیر کے ایک بیٹے بھی شامل تھے۔
تقریب کے مہمانوں میں سابق وزیراعلیٰ سندھ، غوث علی شاہ، سابق سفیر شیری رحمٰن، نجم الدین شیخ، ٹپو جویری، نگہت میر، نفیسہ شاہ، دپیک پاروانی، مظہر صدیقی، سلیم میمن، اعجاز مرزا، مصطفی قریشی، روبینہ قریشی اور عابدہ پروین کے ذاتی معالج ڈاکٹر اسد پٹھان اور ان کی اہلیہ مونا قاضی پٹھان شامل تھے۔