ممتاز ناقد اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر ابو الکلام قاسمی کو 2009ء کے ساہتیہ اکاد می انعام سے نوازا گیا ہے۔ اس کا اعلان اکادمی کے سکریٹری یو کے کرشنا مورتی نے سال کے اختتام پر کیا۔ اکادمی بھارت کی 20 زبانوں کے ادبا اورشعرا کو ہر سال انعام سے نوازتی ہے۔ یہ انعام گزشتہ چار برسوں کے دوران شائع شدہ کسی اہم کتاب پر دیا جاتا ہے۔ ابو الکلام قاسمی کو یہ اعزاز ان کی کتاب ’’معاصر تقنیدی رویے‘‘ پر دیا گیا ہے۔
ابو الکلام قاسمی کی پیدائش بہار کے دربھنگہ ضلع کے دوگھرا گاؤں کے ایک دینی و مذہبی گھرانے میں 30دسمبر سنہ 1950ء کو ہوئی تھی اور انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی مدرسے میں حاصل کی تھی۔ بعد میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا اور اعلیٰ تعلیم وہیں سے حاصل کرنے کے بعد اس ادارہ سے بحیثیت استاد وابستہ ہو گئے اور یہاں وہ گذشتہ ربع صدی سے درس و تدریس میں منہمک رہنے کے ساتھ ساتھ تنقید و تحقیق کی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔
وہ پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ بین فیکلٹی کے عہدے پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔اس کے علاوہ وہاں سے شائع ہونے والے رسالے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے مدیر بھی ہیں۔ اس رسالے کو مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں نے جاری کیا تھا اور اس وقت سے یہ مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ ان کی اب تک ایک درجن تنقیدی و تحقیقی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں انتخاب انعام اللہ خاں یقین، آزادی کے بعد اردو فکشن، تخلیقی تجربہ، شاعری کی تنقید، اردو تنقید کی روایت اور مشرقی نثریات، آزادی کے بعد اردو میں طنز و مزاح بہت اہمیت کی حامل ہیں۔
جدید تنقید نگاروں میں پروفیسر ابو الکلام قاسمی کو ہند و پاک کے ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے متعدد ملکوں کا دورہ کیا ہے اور وہاں کے ادبی جلسوں میں شرکت کی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر گوپی چند نارنگ کے بعد انہیں اردو تنقید کا ایک اہم ستون مانا جاتا ہے۔ قاسمی کو اردو اور انگریزی کے علاوہ فارسی اور عربی پر بھی درک حاصل ہے اس کے علاوہ انہوں نے ان زبان کی تنقیدی کتابوں کا عمیق مطالعہ کیا ہے۔ جس کے سبب ان کی تنقیدی تحریروں میں بہت گہرائی و گیرائی ہوتی ہے۔
پروفیسر ابو الکلام قاسمی کو متعدد انعامات و اعزازات مل چکے ہیں جن میں میر ایوارڈ کے علاوہ بہار اردو اکادمی انعام اور اتر پردیش اردو اکادمی انعام بھی شامل ہیں۔
ساہتیہ اکادمی انعام کا اعلان ہونے کے بعد پروفیسر قاسمی نے وی او اے اردو کو بتایا کہ انہیں لکھنے، پڑھنے سے عشق ہے اور انہو ں نے اس کے لیے اپنی زندگی کو وقف کیا ہے وہ ہمیشہ ہی صلے اور ستائش کی تمنا سے بے پروا رہے ہیں لیکن ان کی تحریروں کو انعام اور اعزاز سے نوازا جاتا ہے تو انہیں خوشی بھی ہوتی ہے اور وہ نوازنے والوں کو قدر کرتے ہیں۔