رسائی کے لنکس

پاکستان: صنفِ نازک پر جاری ’’اذیت ناک‘‘ تشدد


پاکستان کی قومی اسمبلی کی ایک ذیلی کمیٹی نے ایک مسودہٴ قانون کی منظوری دی ہے، جس میں تیزاب پھینکنے کے حملوں اور جلائے جانے کے واقعات میں ملوث افراد کے لیے عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے

پاکستان میں گزشتہ کئی عرصے کے دوران خواتین جہاں ایک طرف بنیادی حقوق سے محروم ہیں، تو دوسری طرف، ان کو مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ معاشرے کی اس کمزور صنف نازک پر ہونے والے تشدد میں سب سے زیادہ اذیت ناک تشدد تیزاب سے جلائے جانے کا ہے۔

’نیویارک ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ہر سال تیزاب سے جلانے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، 2004 میں 46، جبکہ2007 میں 33 واقعات پیش آئے ۔ تحقیق کے مطابق، تیزاب گردی کے واقعات سنہ 2009ء میں 43، سنہ 2010ء میں 55 اور2011ء میں سب سے زیادہ، یعنی 115 واقعات ہوئے۔ ایک تنظیم ’ایسڈ سروائیور فاونڈیشن‘ کے مطابق، 2014 میں لگ بھگ150 جبکہ 2015 میں 69رپورٹ کئے گئے ہیں جن میں اکثریت خواتین کی تھی۔

پاکستان میں ہر سال تیزاب سے جلنے کے تقریباً 150 سے 400 واقعات ہوتے ہیں۔ پچھلے سال2016 میں 96 مقدمات درج ہوئے، جن کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا۔

تحقیق کے مطابق، خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے محض ایک تہائی واقعات رجسٹرڈ ہوتے ہیں، جس کے ساتھ ساتھ اکثر مجرم کو سزا نہیں ملتی۔

شکار زدہ خواتین کو معاشرے میں مختلف چیلنچوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طویل المیعاد سرجیکل علاج کے علاوہ نفسیاتی طور پر بھی ’ڈیپریشن‘ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ان کی زندگی پر اس کے دوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں، خاص طور پر نفسیاتی، سماجی اور اقتصادی۔

ان خواتین کو زندگی کی طرف دوبارہ لوٹنے کے لئے ماہر نفسیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ طبی اور نفسیاتی اثرات کے علاوہ سماجی مضمرات بھی شامل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی اس طرح کے حملوں کا شکار ہوجائے تو اکثر وہ معاشرے میں آزادانہ طور پر زندگی نہیں گزارتیں۔ اکثر ان کی زندگی اپنے گھر تک محدود ہو جاتی ہے، روزمرہ کی سرگرمیوں کے لئے وہ اپنے خاندان عزیز و اقارب پر انحصار کرتی ہیں، کیونکہ یہ متاثرین اپنے لئے کام تلاش نہیں کر سکتیں۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر، حارث برکی نے تیزاب کے واقعات کے بعد ایسی خواتین کے نفسیاتی عوامل کے بارے میں ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مریض ’پوسٹ ٹرومیٹک سٹریس ڈس آرڈر‘ کا شکار ہوجاتے ہیں؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ واقعات جو ان کی زندگی میں گزرے ہیں وہ بار بار ان کے ذہن میں آتے ہیں۔ خوابوں میں بھی وہ ڈرتے ہیں اسکے بعد یہ ڈپریشن میں تبدیل ہوجاتے ہیں اس قسم کے مریضوں کا ٹھیک ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر خاندان کی طرف سے ان کو توجہ ملے تو پھر بہتری آسکتی ہے؛ جبکہ معاشرے میں اکثر لوگوں کے رویوں کی وجہ سے یہ مریض احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں نے کچھ کیا ہوگا، جس کی وجہ سے ان کا یہ حال ہوا ہے۔ ان میں زیادہ خواتین یا تو خودکشی کی طرف مائل ہوجاتی ہیں یا پھر لوگوں سے بات کرنے سے کتراتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مرد کو برتری حاصل ہے، جس کی وجہ سے وہ عورتوں پر کسی قسم کا بھی ظلم کرکے شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔

تاہم، پاکستان میں غیر سرکاری تنطیموں کے علاوہ ایسے بیوٹی سلون موجود ہیں، جن کی بدولت یہ خواتین دوبارہ زندگی کی طرف لوٹنے کے ساتھا ساتھ خودمختار ہو سکتی ہیں۔ ’ڈپلیس سمائل اگین‘ بیوٹی سلون، جسکی سربراہ مسرت مصباح ہیں، نے تیزاب سے جھلسی ہوئی بہت ساری خواتین کا نہ صرف علاج کیا ہے، لکہ ان کو بیوٹیشن کا کورس کروا کر ان کے اپنے پاس نوکری بھی فراہم کی ہے؛ جس کی وجہ سے وہ خواتین اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی ہیں اور ساتھ میں ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھر لوٹ آئی ہے۔

لاہور میں قائم ’سمائل ڈیپلکس بیوٹی سلون‘ میں بشرا نامی خاتون، جس کو اپنے خاوند سمیت سسرال والوں نے تیزاب سے جلایا تھا، کا کہنا ہے کہ چند روپوں کی خاطر میرے پورے سسرال نے مجھ پر تیزاب ڈالا، جسکے بعد میں اس قابل نہیں تھی کے کسی کا سامنا کر سکوں۔ میرے ناک سمیت پورا چہرا خراب ہوگیا تھا۔ اس کے بعد میں نے اس حوالے سے ’سمائل اگین‘ کے بارے میں اشتہار دیکھا تو مسرت مصباح کے پاس آگئی۔ بہت سے آپریشن کے بعد میرے چہرے کی حالت بہتر ہوئی۔ پھر مجھے بیوٹیشن کی کورس کروائی اور اب میں اچھی زندگی بسر کر رہی ہوں۔

’سنٹر آف اسلام اینڈ پبلک پالیسی‘ کے آیکزیگٹیو ڈائریکٹر، زاھد بخاری کا کہنا تھا کہ اسلام میں جلانے کی ممانعت ہے۔ اس قسم کے مظالم اسلامی اقدار کے منافی ہیں؛ اس کے علاوہ، معاشرے، قانون اور انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

عدالتی نظام کو اس قسم کے کیسز میں انصاف کا خیال رکھنا چاہئے اور قانون کا نفاذ کرکے سزا دی جائے، تاکہ یہ عبرت بن جائے اور لوگ پھر اس قسم کے کام نہ کریں۔

ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے پاکستان کے پارلیمان نے 2011 میں ایک قانون منظور کرتے ہوئے تیزاب اور جلانے کے مرتکب افراد کے لیے 14 سال قید کے ساتھ جرمانے کی سزا بھی مقرر کی تھی۔

تاہم، اب اس قانون کو مزید مؤثر بنانے کے لیے پاکستان کی قومی اسمبلی کی ایک ذیلی کمیٹی نے ایک مسودہٴ قانون کی منظوری دی ہے، جس میں اب تیزاب پھینکنے کے حملوں اور جلائے جانے کے واقعات میں ملوث افراد کے لیے عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے اور اس قانون کے مؤثر نفاذ کے لیے ایک نگران بورڈ تشکیل دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

بل میں سفارش کی گئی ہے کہ تیزاب اور آگ سے جلنے والوں کو طبی امداد فراہم کرنا اور ان کی بحالی کی ذمہ داری حکومت کی ہوگی۔

پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کی چئیرپرسن، زہرہ یوسف نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تیزاب پھنکنے کو ایک خاص جرم قرار دیا گیا ہے۔ مگر جیسا کے پاکستان میں بہت سارے قوانین آتے ہیں مگر ان کے نفاذ کا عمل بہت کمزور ہوتا ہے۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ حکومت نے قانون تو پاس کر لیا مگر اسکے ساتھ بہت سارے ضروری اقدامات نہیں کئے گئے۔اس میں، پولیس کی ٹریننگ ضروری تھی کہ وہ کس طرح پروزیکیوشن کا کیس تیار کریں؟ تو یہ سب نہیں ہوا یہی وجہ ہے جب کیس کورٹ میں چلے جاتے ہیں تو وہ کمزور ہوتے ہیں۔ اور تقریبا80ً فی صد کے مقدمات کا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ترمیم کے تحت سزا کی سطح بڑھائی گئی، مگر ایک اہم پہلو جسے قانون کا حصہ نہیں بنایا گیا، وہ تیزاب کی فروخت سے متعلق قانون ہے، جس پر نظرثانی نہیں ہوئی۔ پاکستان میں تیزاب ہر جگہ باآسانی دستیاب ہوتا ہے، تیزاب کی فروخت کھلے عام ہوتی ہے۔

دوسری طرف، سپریم کورٹ کے وکیل، محمود اشراف کا کہنا تھا کہ حکومت کا کام قانون بنانا اور کسی بھی جرم کے لئے سزا مقرر کرنا ہے۔ لیکن، پیش رفت کا حصول طریقہ کار پر منحصر ہے کہ پولیس کس طرح ان کی چھان بین کرتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں تفتیش کا جو طریقہ ہے وہ صحیح نہیں۔

عدالتوں میں اس قسم کے فیصلوں میں تاخیر کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کورٹ کا کردار اس وقت شروع ہوتا ہے جب پولیس اپنی تفتیش بروقت مکمل ہرے؛ جب تک عدالت میں کیس نہیں آئے گا، ان کا فیصلہ نہیں ہوگا؛ اور جس وقت عدالت میں کیس آجائے گا اور جس قسم کی شہادتیں پیش ہوں گی اس کے مطابق فیصلہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں عدالتوں پر بہت بوجھ ہے مگر اسکے بوجود بھی جب کیس عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو ان کا فیصلہ شہادتوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

XS
SM
MD
LG