دمشق میں پیر کے روز حکومتِ شام کی افواج اور باغیوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکنان نے بتایا ہے کہ جب درجن بھر فضائی کارروائیوں کے سائے میں فوج موقعے پر پہنچی، تو وہ اندر پھنس کر رہ گئی۔
تین روز سے جھڑپیں جاری ہیں۔ لیکن، اتوار کے دِن القاعدہ سے وابستہ جنگجوؤں کے ہمراہ باغیوں نے فوج اور سرکار کے حامی مسلح افراد پر دھاوا بول دیا، جس کے نتیجے میں فوجی تنصیب کے کچھ حصوں اور اندر پھنس کر رہ جانے والی فورس کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔
برطانیہ میں قائم ’سیرئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ کے سرگرم کارکن، مازن الشامی نے بتایا ہے کہ پیر کے روز ہونے والی یہ لڑائی حرستا کے مضافات کے نزدیک واقع فوجی تنصیب کے اندر لڑی جاتی رہی، جہاں سرکاری فوج پھنس کر رہ گئی تھی۔
آبزرویٹری نے کہا ہے کہ شامی فضائی فوج نے حرستا کے قرب و جوار میں کم از کم ایک درجن فضائی حملے کیے۔ الشامی نے درجنوں فضائی کارروائیوں کی اطلاع دی ہے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ حکومت نے رات گئے اضافی کمک پہنچائی اور گھیرے میں پھنس کر رہ جانے والی فوج تک پہنچے کی کوشش کی گئی۔
آبزرویٹری نے بتایا ہے کہ گذشتہ تین دِن کے دوران، دمشق کے مضافات میں مشرقی غوطا کے قرب و جوار میں تشدد کی کارروائیاں جاری رہیں، جس دوران 35 شہریوں کے ساتھ ساتھ حکومتی فوج کے 24 اہل کار اور 29 باغی ہلاک ہوئے۔
انتہائی قدامت پسند، ’الاحرار الشام‘ باغی گروپ سے وابستہ ایک اہل کار نے کہا ہے کہ فوجی تنصیب کے اندر پھنس کر رہ جانے والے اُس کے لڑاکوں کو محفوظ گزرگاہ دینے کے بارے میں مذاکرات جاری ہیں۔
اہل کار، جنھوں نے مذاکرات کی رازداری کے پیش نظر اپنا نام ظاہر نہیں کیا، بتایا ہے کہ یہ بات چیت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔