افغانستان میں نیٹو کے منصوبہ ساز سال 2014ء میں اتحادی افواج کا لڑاکا مشن مکمل ہونے سے پہلے ملک میں موجود 30 ارب ڈالر مالیت کے فوجی ساز و سامان کو منتقل کرنے کے طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔
امریکہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار کا کہنا ہے کہ ساز و سامان کی نقل و حمل سے متعلق بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ اس عمل میں جدید ترین بکتربند گاڑیوں، توپ خانے، اسلحے اور دوسری اشیاء کی منتقلی شامل ہے۔
عہدے دار نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ فوجی ساز و سامان کو ہوائی جہازوں کے ذریعے امریکہ یا کسی یورپی ملک منتقل کرنے کی نسبت اس کی سمندر کے راستے منتقلی کم خرچ ہو گی۔
عہدے دار کے بقول اُن کی ہمیشہ خواہش رہی کہ افغانستان کی کوئی بندر گاہ ہوتی لیکن ایسا نہیں ہے۔
افغانستان میں تعینات اتحادی افواج نے گزشتہ سال لڑاکا افواج کی واپسی کا عمل شروع کیا تھا، جو پاکستان کی جانب سے اہم سپلائی لائنز کی بندش کے باعث مشکلات سے دوچار ہے۔ پاکستان نے یہ پابندی نومبر 2011ء میں نیٹو کے فضائی حملے میں اپنے 24 فوجیوں کی ہلاکت کے ردعمل میں عائد کر رکھی ہے۔
عراق سے امریکی افواج کے حالیہ انخلاء کے دوران فوجی گاڑیوں کو قافلوں کی صورت میں کویت لے جایا گیا تھا جہاں ایک بڑی بندر گاہ موجود ہے۔ تاہم افغانستان سے فوجی ساز و سامان کی منتقلی اس کو ٹرکوں یا ٹرین پر لاد کر ہی ممکن ہے۔