امریکی کانگریس کے ایک با اثر رکن نے نیٹو افواج کے لیے رسد کی لائن کاٹنے کے پاکستانی فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ اس اقدام سےامریکہ کو افغانستان میں فوجی و سویلین دونوں ہی شعبوں میں اپنا کام ’’بہت مہنگا‘‘ پڑ رہا ہے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ اُمور کے رکن اور پاکستان کے لیے اقتصادی امداد کے ’کیری لوگر‘ نامی بل کے ایک سپانسر رچرڈ لوگر نے صورت حال کو ’’خاصی نازک‘‘ قرار د یتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ پاکستان سپلائی جلد بحال کر دے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ مہمند ایجنسی میں 26 نومبر کو پاکستانی چوکیوں پر نیٹو کے حملے میں 24 فوجیوں کی ہلاکت پر امریکہ کو پاکستانیوں کی تکلیف اورغصے کا احساس ہے اور امریکی رہنماؤں نے اس کا اعترف بھی کیا ہے۔
’’لیکن اب آگے کا سوچنے کی ضرورت ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ کہنا ہوتا ہے کہ ٹھیک ہے، اب ہم نے اپنا پیغام پہنچا دیا، اب ایک نئی اننگز شروع کی جائے۔‘‘
سینیٹر لوگر کے بقول جس طرح پاکستان کو امریکہ سے شکایتیں ہیں اس ہی طرح امریکہ کو بھی پاکستان سے شکایتیں ہیں کہ وہ ایسے دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا ہے جو امریکی فوجیوں پر حملے کرتے ہیں۔ ’’اس لیے اب ایک دوسرے پر تنقید کو پسِ پشت ڈال کر دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
کانگریس کے بعض اراکین کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر نظرِ ثانی کرنے اور امریکی امداد کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج کی کارکردگی سے مشروط کرنے کے زور پکڑتے مطالبات پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر لوگر نے کہا کہ واشنگٹن میں بہت سے لوگوں کو اس بات پر غصہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی کامیابی کی راہ میں پاکستان کی وجہ سے مشکلات آ رہی ہیں۔
’’لیکن میں دونوں ممالک کے تعلقات کی تاریخ سے بھی بخوبی واقف ہوں، اس لیے دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف اقدامات کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے قریب آنے کی ضرورت ہے۔‘‘
سینیٹر لوگر نے کہا کہ تمام تر اختلافات کے باوجود پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی اہمیت کے پیش نظر اُنھیں بہتر بنانا ضروری ہے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر انھوں نے ’کیری لوگر‘ بل کانگریس میں پیش کیا تھا۔