اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ افغان شہری ہلاکتوں میں گزشتہ کم از کم پانچ سالوں کے دوران پہلی مرتبہ 15 فیصد کمی آئی ہے۔
کابل میں بدھ کو جاری کیے گئے تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں اس سال جنوری سے اب تک کُل گیارہ سو پنتالیس (1,145) افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر طالبان باغیوں کے حملوں کا نشانہ بنے۔ جب کہ زخمی ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد انیس سو چوون (1,954) رہی۔
گزشتہ سال اس عرصے کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پندرہ سو دس (1,510) بتائی گئی ہے جب کہ مجموعی طور پر 2011ء میں تین ہزار چھ سو چوون (3,654) ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تاہم افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن ’یو این اے ایم اے‘ نے اپنی رپورٹ میں متنبہ کیا ہے کہ ملک میں جاری جنگ شہریوں کے لیے بدستور تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔
’’اس سال ہلاک و زخمی ہونے والوں میں تقریباً 30 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ مقامی طور پر تیار کیے گئے بم یا آئی ای ڈیز خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں کی بڑی وجہ رہیں۔‘‘
تنظیم نے کہا ہے کہ مغرب کی حمایت یافتہ صدر حامد کرزئی کی حکومت کے خلاف سرگرم عمل طالبان اور دیگر باغی تنظیموں کی پرتشدد کارروائیاں 80 فیصد ہلاکتوں کا باعث بنی ہیں جو گزشتہ سال اسی عرصے میں ہونے والے شہری جانی نقصانات میں 15 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
دس فیصد ہلاکتوں کی وجہ افغان اور نیٹو افواج کی انسداد دہشت گردی کی کوششیں بیان کی گئی ہیں جو پچھلے سال کے مقابلے میں 25 فیصد کمی کو ظاہر کرتی ہے۔
کابل میں بدھ کو جاری کیے گئے تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں اس سال جنوری سے اب تک کُل گیارہ سو پنتالیس (1,145) افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر طالبان باغیوں کے حملوں کا نشانہ بنے۔ جب کہ زخمی ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد انیس سو چوون (1,954) رہی۔
گزشتہ سال اس عرصے کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پندرہ سو دس (1,510) بتائی گئی ہے جب کہ مجموعی طور پر 2011ء میں تین ہزار چھ سو چوون (3,654) ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تاہم افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن ’یو این اے ایم اے‘ نے اپنی رپورٹ میں متنبہ کیا ہے کہ ملک میں جاری جنگ شہریوں کے لیے بدستور تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔
’’اس سال ہلاک و زخمی ہونے والوں میں تقریباً 30 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ مقامی طور پر تیار کیے گئے بم یا آئی ای ڈیز خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں کی بڑی وجہ رہیں۔‘‘
تنظیم نے کہا ہے کہ مغرب کی حمایت یافتہ صدر حامد کرزئی کی حکومت کے خلاف سرگرم عمل طالبان اور دیگر باغی تنظیموں کی پرتشدد کارروائیاں 80 فیصد ہلاکتوں کا باعث بنی ہیں جو گزشتہ سال اسی عرصے میں ہونے والے شہری جانی نقصانات میں 15 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
دس فیصد ہلاکتوں کی وجہ افغان اور نیٹو افواج کی انسداد دہشت گردی کی کوششیں بیان کی گئی ہیں جو پچھلے سال کے مقابلے میں 25 فیصد کمی کو ظاہر کرتی ہے۔