افغانستان نے ایک امریکی فوجی اہلکار کی مبینہ فائرنگ سے 16 شہریوں کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات میں امریکہ کے تعاون پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
قبائلی عمائدین اور مقتولین کے لواحقین سے جمعہ کو کابل میں ملاقات کے بعد اُن کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ وہ اس واقعے سے متعلق اپنے تحفظات کا برملا اظہار کرتے رہیں گے۔
’’آرمی چیف (جنرل شیر محمد کریمی) نے کچھ دیر پہلے ہی مجھے بتایا ہے کہ امریکی حکام افغان تفتیش کاروں کے ساتھ وہ تعاون نہیں کر رہے جس کی اُنھیں توقع تھی۔‘‘
اُنھوں نے الزام لگایا کہ امریکی فوج پہلے بھی ایسی’’عیاشیوں‘‘ کا مظاہرہ کر چکی ہے۔
’’یہ سب کچھ ایک طویل عرصے سے جاری ہے اس لیے ہم ہر طرح سے رسی کے سرے پر پہنچ چکے ہیں ... اس قسم کی کارروئیاں اور رویہ برداشت کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔‘‘
جنوبی صوبہ قندھار کے پنجوائی ضلع میں شہری ہلاکتوں کا واقعہ گزشتہ اتوار کو پیش آیا تھا جب ایک امریکی فوجی نے اپنے اڈے سے باہر نکل کر قریبی گھروں میں گھس کر خواتین اور بچوں سمیت 16 افراد کو ہلاک اور پانچ کو زخمی کر دیا تھا۔
امریکہ نے اس فوجی کو حراست میں لینے کے بعد اُسے مزید تحقیقات کے لیے کویت منتقل کر دیا ہے۔ صدر براک اوباما نے اس واقعے پر افغانستان سے معافی مانگتے ہوئے اسے امریکی فوجی کا ذاتی فعل قرار دیا ہے۔
لیکن صدر کرزئی نے کہا کہ اس واقعے کے بارے میں عینی شاہدین اور امریکی اہلکاروں نے واضح طور پر متضاد بیانات دیے ہیں۔
’’قبائلی عمائدین کے خیال میں ایک فرد اکیلا یہ نہیں کر سکتا ... ایک گھرانے کے افراد کو چار مختلف کمروں میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کی لاشوں کو اکٹھا کر کے آگ لگائی گئی۔‘‘
نیوز کانفرنس میں موجود آرمی چیف جنرل شیر محمد کریمی نے کہا کہ اُنھوں نے امریکی فوجی افسران سے تحقیقات میں تعاون کی کئی درخواستیں کیں اور کہا کہ افغان تفتیش کار شہریوں کے قتل میں ملوث ’’شخص یا افراد‘‘ سے خود سوالات کرکے اس واقعے کے حقائق جاننا چاہتے ہیں، ’’مگر ہم سے کوئی تعاون نہیں کیا گیا‘‘۔