رسائی کے لنکس

ڈالرز ڈبل کرنے کا جھانسہ؛ وسطی پنجاب میں سینکڑوں شہری جمع پونجی سے محروم


پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وسطی شہروں میں ڈیجیٹل ایپ کے ذریعے شہریوں سے بھاری رقوم اینٹھنے کا معاملہ سامنے آیا ہے جس میں مبینہ طور پر ہزاروں شہری اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

چند روز سے وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کو 'آئی ڈی اے' نامی ایپ کے ذریعے فراڈ کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ مذکورہ ایپ صارفین کو ڈالرز میں سرمایہ کاری کے ذریعے رقم ڈبل کرنے کا جھانسہ دے رہی تھی۔

متاثرین کا کہنا ہے کہ اُنہیں ڈالر ڈبل کرنے کا جھانسہ دیا گیا اور پھر ایپ ہی بند کر دی گئی۔ بدھ کو ایپ کی بندش کو تین روز گزر چکے ہیں اور اب متاثرین کی بڑی تعداد کو اپنی رقوم ڈوبنے کا خدشہ ہے۔

متاثرہ شہریوں کا کہنا ہے کہ ایپ کی انتظامیہ نے مختلف شہروں میں جو ایجنٹ مقرر کیے تھے وہ بھی اپنے گھروں اور دفاتر سے غائب ہیں۔

بعض متاثرین ایجنٹس سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جن کا یہ مؤقف ہے کہ اُن کا رابطہ بھی ایپ انتظامیہ سے فون پر ہی ہوتا رہا ہے اور بین الاقوامی نمبروں سے ہی کالز موصول ہوتی تھیں۔ وہ ایپ مالکان سے نہ تو کبھی ذاتی طور پر ملے ہیں اور نہ ہی انہیں جانتے ہیں۔

ایف آئی اے سائبر کرائم میں درخواستیں

ایف آئی اے سائبر کرائم اس کیس پر نظر رکھے ہوئے ہے تاہم اس ادارے نے تاحال باضابطہ تحقیقات کا آغاز نہیں کیا۔

ریجنل ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم رب نواز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کچھ لوگوں نے 'آئی ڈی اے' ایپ کے خلاف فراڈ اور دھوکہ دہی کرنے کے الزامات پر مشتمل درخواستیں تو دائر کی ہیں۔ لیکن جب تک ضابطے کی کارروائی نہیں کی جاتی اس وقت تک انکوائری کا آغاز نہیں ہوسکتا۔


خیال رہے کہ اب تک وسطی پنجاب کے جن شہروں میں ایپ کے متاثرین سامنے آئے ہیں ان میں فیصل آباد ، جہلم ، گجرات ، سیالکوٹ ، منڈی بہاؤالدین ، گوجرانوالہ ، نارووال ، حافظ آباد اور شیخوپورہ کے اضلاع بھی شامل ہیں۔

شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کا حتمی تخمینہ تو نہیں لگایا گیا، تاہم متاثرہ شہریوں کا دعویٰ ہے کہ مجموعی طور پر کروڑوں روپے کا فراڈ ہوا ہے اور لوگوں سے پاکستانی روپے کے بجائے ڈالرز اینٹھے گئے ہیں۔

'آئی ڈی اے' ایپ ہے کیا اور کس طرح کام کرتی تھی ؟

آئی ڈی اے نامی ایک ایپ ایک سال پہلے سامنے آئی تھی۔ متاثرین کے مطابق ایپ کے ایڈمن نے یہ جھانسہ دیا تھا کہ یہ انویسٹمنٹ سے متعلق ایپ ہے جس میں پاکستان کے علاوہ بھارت ، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے بھی لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں۔

اس ایپ پر انویسٹمنٹ کے سات معیار مقرر کیے گئے۔ سب سے کم 121 ڈالر تھا یعنی اگر 121 ڈالر سے اپنا سرمایہ کاری اکاؤنٹ کھلوائیں تو چھ ڈالرز روزانہ مل سکتے ہیں ، یوں رقم صرف 20 روز میں ڈبل ہو جائے گی۔

سرمایہ کاری کی زیادہ سے زیادہ حد کوئی مقرر نہیں کی گئی تھی ، یعنی جتنی زیادہ سرمایہ کاری کریں گے اتنا ہی زیادہ منافع کمائیں گے۔ بیشتر لوگوں نے آغاز تو کم سرمایے سے کیا لیکن پھر زیادہ منافع آتا دیکھ کر سرمایہ کاری بڑھا دی اور اپنے اکاؤنٹس کو اپ گریڈ کرلیا۔

ایپ استعمال کرنے کا طریقہ بھی آسان رکھا گیا تھا۔ ایپ کو آن کر کے ایک دن میں ہر چار منٹ کے وقفے کے بعد ایک بار کلک کرنا ہوتا۔ دو گھنٹوں میں مجموعی طور پر 30 کلک کرنے ہوتے تھے۔ ہر کلک کے بعد ڈالرز اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کا گرین سگنل ملتا تھا۔ چوں کہ ڈالرز ملنے کی شرح سرمایہ کاری کے تناسب سے ہوتی تھی اس لیے ممبران کی یہ خواہش ہوتی کہ وہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ ڈالرز ان کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوں۔

ایپ میں ممبران کی تعداد بڑھانے کے لیے جو اسکیم متعارف کروائی گئی اس کے مطابق ہر نئے ممبر کو تین سے پانچ نئے سرمایہ کار شامل کرنا ہوتے تھے جن کو اپنی انویسٹمنٹ کا منافع تو ملتا ہی تھا۔لیکن اس نئے سرمایہ کار کے منافع سے ہٹ کر اس انویسٹر کو بھی اضافی حصہ ملتا تھا جس نے اسے ممبر بنایا ہو۔

ہر ممبر کی طرف سے مزید تین سے پانچ نئے ممبر بنانے کی اسکیم بظاہر کامیاب رہی اور روزانہ سینکڑوں نئے ممبرز بننے لگے۔ ایپ کے ممبران کی تعداد جتنی زیادہ بڑھتی گئی اتنا ہی زیادہ سرمایہ پاکستان سے باہر منتقل ہوتا گیا۔


'منافع آتا دیکھ کر کئی صارفین نے رقوم نہیں نکلوائیں'

آئی ڈی اے کے متاثرین سے ملاقات کرکے ایک اہم بات یہ سامنے آئی کہ سرمایہ کاری کرنے والوں کو ایپ انتظامیہ کی طرف سے منافع بھی ان کے اکاؤنٹ میں باقاعدگی سے منتقل ہوتا رہا۔ ان کے پاس رقم حاصل کرنے کا اختیار بھی تھا لیکن بہت کم لوگوں نے اپنا منافع اکاؤنٹ سے نکلوایا۔

لوگوں کی بڑی تعداد منافع کو وہیں ایپ میں ری انویسٹ کردیتی تھی تاکہ ان کی رقم مسلسل بڑھتی رہے ، اگر کسی نے ایک ہزار ڈالر سے اپنا اکاؤنٹ شروع کیا تو چند ہی ماہ بعد اس کے اکاؤنٹ میں پانچ چھ ہزار ڈالر موجود تھے۔ لیکن ہر بار منافع کی وہیں سرمایہ کاری کردی جاتی تھی اور اکاؤنٹ میں رقم بڑھتی رہی۔

گوجرانوالہ کی وحدت کالونی کے رہائشی محمد کاشف کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک سمجھ نہیں پائے کہ ایپ انتظامیہ نے فراڈ کیوں کیا؟

ان کا کہنا ہے کہ جب لوگ سرمایہ کاری کررہے تھے تو ایپ انتظامیہ کو انڈے کھانے چاہیے تھے۔ انہوں نے راتوں رات مرغی ہی ذبح کر ڈالی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ موبائل فون سامنے رکھے ہوئے ہیں کہ جب بھی ایپ آن ہو اور کیش نکالنے کی آپشن کھلے تو وہ فوراً اپنا کیش نکلوا لیں۔

انہوں نے بتایا کہ" میں نے سرمایہ کاری 121 ڈالرز سے شروع کی تھی جس میں دو دفعہ اضافہ کیا گیا ، ان کی ذاتی رقم ڈھائی ہزار ڈالرز ہے جب کہ منافع چھ ہزار ڈالرز الگ سے ہے ، سب کچھ ایپ کے اکاؤنٹ میں تھا میں نے تو ایک ڈالرز بھی نہیں نکلوایا۔"

ایک اسٹور کے مالک قاضی طلال نے بتایا کہ انہوں نے پانچ ہزار ڈالرز کی سرمایہ کاری کی تھی اور ان کے اسٹور کا سارا عملہ ایپ ممبر تھا جوکہ ڈیوٹی سے فارغ ہوکر اکٹھے بیٹھ کر کلک کرتا۔

انہوں نے کہا کہ ایپ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو زیادہ منافع کا لالچ مار گیا، ممبرز رقم نکلوانے کے بجائے ری انویسٹ کرتے رہے تاکہ منافع کی شرح بڑھتی رہے اور وہ جلد سے جلد امیر ہو جائیں۔

قاضی طلال کہتے ہیں کہ "کچھ لوگوں نے اپنے پلاٹ ، کچھ نے دکانیں اور کچھ نے ماؤں، بہنوں یا بیویوں کے زیورات بیچ ڈالے کہ جب کچھ ماہ بعد بھاری منافع ہوگا تو زیور پھر سے بنوا لیں گے اور ساتھ میں سرمایہ کاری بھی چلتی رہے گی۔"

ان کا کہنا تھا کہ آئی ڈی اے ایپ نے لوگوں کو سہانا خواب دکھایا تھا جوکہ پورا نہ ہوسکا اور سہانا سپنا ٹوٹ گیا۔


تاثیر مغل وی لاگر ہیں جنہوں نے تین ماہ پہلے ڈیڑھ لاکھ روپے سے سرمایہ کاری کی تھی ، ان کا کہنا ہے کہ ایپ بند ہونے سے ایک روز قبل ہی یہ اپنی اصل رقم نکلوا چکے تھے تاہم منافع کی رقم جو کہ چار لاکھ روپے سے زیادہ تھی وہ ان کے اکاؤنٹ میں موجود تھی۔

متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ چھ اپریل کو ایپ نے اچانک ہی ڈبل اسکیم کا اعلان کردیا اور یہ کہا کہ سات اپریل سے 12 اپریل تک جتنے ڈالرز بھجواؤ گے وہ فوری ڈبل ہو جائیں گے۔

کیش ڈبل اسکیم شروع ہوتے ہی ہر شخص زیادہ سے زیادہ ڈالرز بھجوانے لگا ، کچھ لوگوں نے اپنی بیگمات کے زیورات فروخت کرکے رقم بھجوا دی کہ جب ڈالرز ڈبل ہو جائیں گے تو پھر سے زیورات خرید لیں گے۔

سات اپریل کی رات ایپ ایڈمن نے کیش ودڈرا کی آپشن بند کردی جب کہ نو اپریل کی صبح ایپ ہی بند کردی گئی ، تادم تحریر ایپ بند ہوئے تین روز ہوچکے ہیں اور ایپ دوبارہ آن نہیں ہوئی ہے۔

متاثرہ افراد کے وکلا سے رابطے

محمد ساجد بٹ ایڈووکیٹ سائبر کرائم قوانین کے ماہر ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ بیسیوں متاثرہ افراد نے رابطہ کیا ہے ۔متاثرین میں خواتین بھی شامل ہیں جوکہ اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے زارو قطار روتی ہیں۔

ساجد بٹ ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ چوں کہ مقامی سطح کا فراڈ نہیں بلکہ اس میں کسی دوسرے ملک کے لوگ ملوث ہوئے ہیں اس لیے حکومتی سطح پر اس بارے میں نوٹس لیا جانا اور کارروائی کرنے کا تحریری حکم جاری کرنا ضروری ہے۔

ماہر قانون شہروز شبیر چوہان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ الیکٹرونک کرائم ایکٹ 2016 کے تحت ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ کارروائی کرنے کا مجاز فورم ہے اور اگر وہ کارروائی نہیں کرتا تو اس سلسلے میں متاثرہ افراد کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایپ بیرون ملک سے کنٹرول ہو رہی تھی لیکن جرم پاکستان میں ہورہا تھا اور مدعی فریق بھی پاکستان میں موجود ہیں تو اس کی ایف آئی آر پاکستان میں ہونی چاہیے اور قانون کے مطابق اس میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ چوں کہ اطلاعات کے مطابق پورے ملک میں متاثرین موجود ہیں جن کے ساتھ الیکٹرونک جرم کیا گیا اور ہر جگہ الگ الگ ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی اس لیے بہتر ہے کہ اسلام آباد کے ایف آئی اے سائبر کرائم تھانے میں اس کی ایک ہی مشترکہ ایف آئی آر درج کی جائے اور تمام متاثرہ افراد کو اس میں بطور فریق شامل کیا جائے۔


تاج کمپنی اور ڈبل شاہ کے بعد تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ ؟

پنجاب میں سرمایہ کاری کے نام پر لوگوں کے ساتھ فراڈ کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں تاج قرآن کمپنی اور ڈبل شاہ کیس نمایاں ہیں۔

پنجاب میں تاج قرآن کمپنی اسکینڈل نے شہریوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا جب 23 ہزار سے زیادہ لوگوں سے سرمایہ کاری کے نام پر بھاری رقوم اکٹھی کی گئیں اور ان کے ساتھ فراڈ کیا گیا۔ بعد ازاں کئی برسوں بعد متاثرین کو ان کی اصل رقوم لوٹائی گئیں، کئی متاثرہ افراد رقم واپسی کی آس لیے اس دنیا سے ہی چلے گئے۔

وزیر آباد کے علاقے میں ایک سکول ٹیچر سید سبط الحسن المعروف ڈبل شاہ نے لوگوں کو رقم ڈبل کرنے کا لالچ دے کر لوٹا جسے اپریل 2007 میں نیب نے گرفتار کرلیا۔اس کے پلازوں ، پیٹرول پمپس، کمرشل پلاٹوں اور کوٹھیوں کو اپنے قبضے میں لے کر نیلام کیا اور ہزاروں متاثرین کو اربوں روپے واپس لوٹائے گئے۔

ایف آئی اے کے ایک آفیسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایپ فراڈ کے جرم میں الیکٹرونک کرائم ایکٹ 2016 کی دفعات 13 اور 14 کے تحت مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے جس کی سزا پانچ سال تک قید و جرمانہ ہوسکتی ہے ، اس کے علاوہ مقدمہ میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 420 ، 468 ، 471 اور 109 عائد کی جاسکتی ہیں جوکہ دھوکہ دہی و فراڈ سے متعلق ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بات مصدقہ ہے کہ اس ایپ کو بیرون ملک سے چلایا جارہا تھا اور پاکستان سے باہر بھی لوگوں نے اس ایپ میں سرمایہ کاری کررکھی تھی۔

اُن کے بقول متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے بیرون ممالک مقیم اپنے رشتہ داروں کو بھی اس ایپ کے بارے میں بتایا تھا جنہوں نے ڈالرز ڈبل کرنے کے چکر میں ایپ کا استعمال شروع کردیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق اس نوعیت کی لگ بھگ تین چار مزید ایپ چلائی جارہی ہیں جوکہ لوگوں کو سرمایہ کاری کی طرف راغب کرتی ہیں ۔

XS
SM
MD
LG