افغانستان میں کرکٹ سٹروکس کی آوازیں اتنی بار سننے کو ملتی ہیں جتنی یہاں گولیوں کی آواز سنائی نہیں دیتی، اگرچہ اِس ملک میں شورش برپا ہے۔
کرکٹ کا جنون یہاں اِس قدر موجود ہے کہ طالبان بھی اس کو غیر قانونی قرار دینے سے گریزاں رہے، حالانکہ اُنھوں نے پتنگ بازی پر بھی پابندی عائد کر رکھی تھی۔
تاہم، طالبان کی طرف سے اِس کھیل کو قبول کرنے کے باوجود افغان ٹیم کے بلے باز رئیس احمد زئی کو کرکٹ کھیلنے کے لیے پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور زیادہ وقت گزارنا پڑا۔
اُنھوں نے کہا کہ: ‘ ہمارے لیے زندگی بہت مشکل ، بہت سخت ہے۔ اکثر اوقات ہم پشاور کا رُخ کر رہے ہوتے ہیں اور یہ سفر خطروں سے قطعاً خالی نہیں ہوتا۔’
افغانستان کے بیشتر کھلاڑیوں نے اپنی کرکٹ کا آغاز اسلام آباد میں مہاجر کیمپوں میں کیا۔
نوجوان افغان لڑکے آج بھی کرکٹ کھیلنے کے لیے یہاں جمع ہوتے ہیں۔ ایک کے اوپر ایک رکھی اینٹوں کو وکٹ خیال کرتے یہ لڑکے اکثر ننگے پاؤں کرکٹ کھیلتے ہیں۔
افغان کرکٹ بورڈ کے عہدے داروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ کرکٹ کے فروغ میں درکار فنڈز کے لیے بین الاقوامی برادری ، نجی عطیہ دہندگان اور سپانسرز پر انحصار کرتے ہیں۔
ایک سال قبل، بورڈ نے کابل میں ایک کرکٹ سٹیڈیم تعمیر کیا تھا۔ یہ شہر کے اُس فٹ بال سٹیڈیم سے متصل ہے جسے طالبان نے پھانسی گھاٹ بنا رکھا تھا۔
جواں سال اسماعیل ابراہیم پاکستان کے ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے اور وہیں رہائش پذیر ہیں۔ وہ کابل سٹیڈیم میں بڑھ فخر کے ساتھ اپنی اسناد لیے داخل ہوئے۔ اُنھوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان میں ہونے والی اُن کی تربیت اُنھیں افغانستان کے انڈر 19میں شمولیت کا اہل بنائے گی۔
احمدزئی کا کہنا ہے کہ کرکٹ ڈپلومیسی سے اُن کے ملک کا تشخص بہتر ہوگا۔ وہ گذشتہ سال متحدہ عرب امارات میں ایشین کرکٹ کونسل کے زیرِ اہتمام ٹی 20ٹورنامنٹ میں فتح کے بعد مقامی میڈیا میں اپنی کوریج کو یاد کرتے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ اخبار نے ہماری فتح پر تصویر کے ساتھ سرخی جمائی تھی ‘نیو افغان آرمی۔’ اُنھوں نے کہا کہ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم امن کے لیے کام کر رہے ہیں اور ہم دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور ہم اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
بعض کرکٹ مبصرین کا خیال ہے کہ افغان ٹیم میں صلاحیت موجود ہے کہ وہ دنیا کی کچھ مستند ٹیموں کو اس عالمی کپ میں شکست سے دوچار کردے۔
اُدھر، افغان کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ جِن مشکلات سے وہ دوچار رہے ہیں، اُن کو دیکھا جائے تو عالمی کپ میں کوالی فائی کرنا ہی اُن کی فتح ہے۔
گذشتہ سال متحدہ عرب امارات میں ایشین کرکٹ کونسل کے زیرِ اہتمام ٹی 20ٹورنامنٹ میں افغان کرکٹ ٹیم کی فتح کے بعد، ایک مقامی اخبار نےتصویر کے ساتھ سرخی جمائی تھی: ‘نیو افغان آرمی’
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1