امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے اعلان کے مطابق افغانستان سے افواج کی واپسی کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ افغانستان سے نکالے گئے لوگوں کو قریب واقع ممالک میں عارضی قیام کرایا جا رہا ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں نہ ابھی کوئی باقاعدہ حکومت ہے نہ سیکیورٹی کی کوئی ضمانت ہے، طیاروں کے کابل ایئرپورٹ پر اترنے اور وہاں سے روانہ ہونے میں کتنے خطرات اور چیلنجز ہیں، اس کا اندازہ اس شعبے کے ماہرین ہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔
فہد ابن مسعود فلائٹ سیفٹی اور سول ایوی ایشن کے ماہر ہیں اور پاکستان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ملکوں کی ایئر لائنز کے لئے بھی کام کرتے ہیں۔ افغانستان کی صورت حال کے پس منظر میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کا سول ایوی ایشن کا نظام بیشتر غیر ملکی ہی چلا رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ 31 اگست کے بعد شاید صورت حال یہ نہ رہے اور ٹیکنکل عملہ جو پروازوں کو اتروانے اور روانہ کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے، اتنا تجربہ کار نہ ہو جتنا ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت اسلامک اسٹیٹ (خراسان) کی ملک میں موجودگی سب سے بڑا خطرہ ہے جس نے ایئرپورٹ اور اس کے اطراف حملے کر کے پروازوں کے لئے خطرات میں اضافہ کر دیا ہے۔ اور اس خطرے سے نمٹنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کرنا ضروری ہیں، جن میں ہیومن انٹیلی جنس سے لے کر سگنل انٹیلی جنس تک کا استعمال ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کے ایک رکن کی حیثیت سے پاکستان اور اس کی ایئرلائن بھی اس انخلا میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں کوئی پرواز بھی جو کابل ایئر پورٹ پر اترے یا وہاں سے روانہ ہو، پورے طور پر محفوظ قرار نہیں دی جا سکتی۔
فہد ابن مسعود کا کہنا تھا کہ انخلاء کے لئے حکمت عملی یہ اختیار کی جا رہی ہے کہ لوگوں کو افغانستان سے نکال کر چھوٹی پروازوں کے ذریعے پاکستان یا دوسرے قریبی ملکوں میں ان کو عارضی طور ہر ٹھہرایا جائے اور پھر بتدریج ان کو متعلقہ ملکوں تک پہنچایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کم وقت میں زیادہ لوگوں کا افغانستان سے انخلاء ممکن ہو سکے گا۔
ادھر پی آئی اے کے مارکٹنگ اینڈ کمیونیکیشن کے شعبے کے سربراہ عبداللہ ایچ خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بہت سی انٹرنشنل ایجنسیوں کی طرف سے اور غیر ملکی سفارت خانوں کی جانب سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں کہ ان کے شہریوں اور ان کے افغان عملے کے افغانستان سے انخلاء کے کام میں مدد دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اب تک سات پروازوں کے ذریعے ہم کوئی 1460 افراد کا انخلاء کرا چکے ہیں جن میں پاکستانیوں کے علاوہ افغان اور دوسری قومیتوں کے لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ بقول ان کے، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ روز فلائٹ آپریٹ کریں اس کے لئے ہم متعلقہ حلقوں سے اجازت بھی لیتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے جن لوگوں کی بکنگ ہوتی ہے جب ان کی کنفرمیشن نہیں آتی تو ہمیں پرواز منسوخ کرنی پڑتی ہے۔
عبد اللہ ایچ خان نے مزید بتایا کہ پیر کے روز بھی پی آئی اے کی ایک خصوصی کمرشل فلائٹ مزار شریف پر اتری ہے جو کہ کابل ایئرپورٹ پر پروازیں بحال ہونے کے بعد کابل کے علاوہ کسی دوسرے ایئرپورٹ پر اترنے والی پہلی کمرشل پرواز ہے جس کے ذریعے عالمی ادارہ صحت کا امدادی سامان اور ادویات وہاں پہنچائی گیئں جن کی افغانستان میں اس وقت شدید قلت ہے۔
پروازوں کے کے لئے کابل ایئرپورٹ پر کیا عملی دشواریاں ہیں، اس بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں کہا کہ سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش ہے کہ افغان سول ایوی ایشن ابھی تک پوری طرح سے بحال نہیں ہوئی؛ ایئر ٹریفک کنٹرولر کا نظام بحال نہیں ہو سکا ہے۔ اس کے علاوہ ایئرپورٹ کے اندر جو سیکیورٹی ہونی چاہئیے وہ بھی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ابھی تک کسٹمز اور امیگریشن کا نظام بھی بحال نہیں ہو سکا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے لئے جو باہر نکلنا چاہتے ہیں، گھروں سے نکل کر ایئر پورٹ پہنچنا ایک بہت مشکل کام ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا طالبان پاکستان ایئرلائن سے تعاون کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ جب ہم پروازیں آپریٹ کرتے ہیں تو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسافروں کو ایئرپورٹ تک لانے اور ان کی سیکیورٹی کے لئے انتظامات پی آئی اے پاکستانی سفارت خانہ کے ذریعے کرتی ہے جو مقامی طالبان کمانڈروں سے بات کر کے اجازت حاصل کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آگے چل کر جب ایئرلائن افغانستان میں اپنا دفتر بحال کرے گی تو اس کا تعلق افغان سول ایوی ایشن یعنی ایک ادارے سے ہو گا نہ کہ کسی گروپ یا دھڑے سے۔