اگست میں افغانستان سے امریکی افواج کے چلے جانے اور کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پیدا ہونے والی افراتفری سے فلبرائٹ سکالرشپ پروگرام کے لئے درخواست دینے والے طالب علم بھی متاثر ہوئے ہیں۔
سال 2022ء کے تعلیمی سال کے لئے شکالرشپ کی منتظر 23 سالہ مریم جامی کا تعلق افغانستان کے صوبہ ہرات سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 15 اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ہم نے امریکی محکمہ خارجہ یا فل برائٹ پروگرام کی طرف سے اپنی درخواستوں کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔ اگرچہ اس سے پہلے ان کی طرف سے ہر مرحلے پر ای ملیز آرہی تھیں کہ کیا کرنا ہے؛ انٹرویو کب ہوگا۔
مریم جامی کی طرح وائس آف امریکہ سے بات کرنے والے کچھ دیگر افغان طالب علموں کا کہنا ہے کہ وہ متعلقہ اداروں اور عہدے داروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن، ان کی طرف سے کوئی باضابطہ جواب موصول نہیں ہوا۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ آئندہ ہفتوں میں ان سے رابطہ کیا جائے گا۔
کابل کے رہائشی فرہاد احسانی بھی اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر امریکی محکمہ خارجہ یا کابل کی فل برائٹ ٹیم نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا تو ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔
بقول ان کے،"میں کسی حد تک ناامید ہو جاؤں گا۔ ہو سکتا ہے کہ میں پاکستان، ایران یا کسی اور ملک چلا جاؤں، کیونکہ اگر میں یہاں رہوں گا تو میرا مستقبل اچھا نہیں ہوگا"۔
فرہاد احسانی کا کہنا ہے کہ فل برائٹ سکالرشپ کے سیمی فائنل مرحلے میں داخل ہونے والے تمام افغان طالب علموں کو آخری بار ای میل پر اطلاع ملی کہ انٹرویو ستمبر میں ہوں گے، جو نہیں ہوئے۔
کچھ افغان طالب علم پہلے بھی کئی بار فل برایٹ سکالرشپ کی درخواستیں دے چکے ہیں۔ قندھار سے تعلق رکھنے والے عصمت اللہ مسلم بھی انہیں میں سے ایک ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ "میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ فل برائٹ پروگرام ایک انٹرنیشنل ایکسچینج پروگرام ہے اور اس تعلیمی پروگرام پر سیاست نہیں کرنی چاہیے یا یہ سیاسی نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اسے معمول کے مطابق جاری رہنا چاہیے''۔
ساتھ ہی، افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیوں کے پیش نظر افغان طالبات میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔
طالبہ مریم جامی کہتی ہیں کہ ہمیں اب افغانستان میں بھی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں۔"لڑکیاں ابتدائی تعلیم کے بعد سیکنڈری تعلیم جاری نہیں رکھ سکتیں۔ اگر بین الاقوامی کمیونٹی ہماری مدد نہیں کرے گی تو ہم افغانستان کے مستقبل کے لئے کچھ نہیں کر سکیں گے"۔
نعمت اللہ سید نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا ہے اور اب وہ فل برائٹ پروگرام کے ذریعے بینکنگ اور فنانس میں ماسٹرز کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں فل برائٹ کے تقریبا 1300 سیمی فائنلسٹ ہیں جو محکمہ خارجہ کی طرف سےجواب کے منتظر ہیں۔
بقول ان کے، "ہم نے طویل انتظار کیا ہے۔ ہم انٹرویو کے مستحق ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ حکومت کے امریکہ کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں۔ لیکن یہ ایک تعلیمی اور ثقافتی تبادلے کا پروگرام ہے جو سیاسی تعلقات سے متاثر نہیں ہوگا۔"
امریکی محکمہ خارجہ نے وائس اف امریکہ کو دئے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ "ہم افغانستان میں ہونے والے واقعات کو قریب سے دیکھ رہے ہیں اور فلبرائٹ پروگرام کے مستقبل کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس سال ہم نے اب تک امریکی کیمپسز میں افغانستان سے فلبرائٹ طلبا کے سب سے بڑے گروپ کا استقبال کیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ افغان طلبا اور ان کے خاندانوں کے لیے ایک مشکل وقت ہے۔ انٹرویوز کوویڈ وبا کی وجہ سے ستمبر تک ملتوی کیے گیے تھے"۔
امریکی حکام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے افغان طلبا ٹوئٹر پر ٹرینڈچلا رہے ہیں تاکہ اپنی آواز متعلقہ حکام تک پہنچا سکیں۔