طالبان حکومت نے دارالحکومت کابل کی بلدیہ میں ملازم خواتین کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی ہے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قائم مقام میئر حمد اللہ نامونے نے اس فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف ان خواتین کو بعض ایسے شعبوں میں کام کی اجازت ہو گی جہاں صرف خواتین ہی کام کر سکتی ہیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق حمد اللہ نامونے نے بتایا کہ ان شعبوں میں ڈیزائن اور انجینئرنگ کے شعبے شامل ہیں جن میں ہنر مند ورکرز سمیت خواتین کے پبلک ٹوائلٹس کی خواتین اٹینڈنٹس شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ طالبان کے کنٹرول سے قبل شہر کے لگ بھگ تین ہزار ملازمین میں سے ایک تہائی خواتین تھیں جو تمام شعبوں میں کام کرتی تھیں۔
میئر کا کہنا تھا کہ کابل میونسپلٹی میں خواتین ملازمین سے متعلق حتمی فیصلہ ابھی زیرِ التوا ہے اور وہ اس دوران اپنی تنخواہیں حاصل کر سکتی ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ صورتِ حال اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ طالبان خواتین کو حقوق دینے سے متعلق عالمی برادری کے ساتھ کیے گئے وعدوں سے انحراف کر رہے ہیں۔
البتہ طالبان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق خواتین کو اُن کے حقوق اور کام کرنے کی اجازت دینے کی اپنی یقین دہانی پر قائم ہیں۔
اس سے قبل طالبان حکومت نے وزارتِ امورِ خواتین کو بند کر دیا تھا اور اسے ایک وزارت سے تبدیل کر دیا تھا جس کا مقصد اخلاقیات کا فروغ اور برائیوں سے روکنا بتایا گیا تھا۔
جمعہ کو کابل میں وزارتِ امورِ خواتین کی عمارت کے باہر نئے نشان آویزاں کیے گئے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ اب یہ ''وزارتِ تبلیغ و رہنمائی اور برائی کی روک تھام' کا ہیڈکوارٹرز ہے۔
علاوہ ازیں عالمی بینک کے 10 کروڑ ڈالر کے خواتین کے اقتصادی ترقی اور دیہی ترقی کے پروگرام کے رکن شریف اختر کے مطابق ہفتے کو تبدیلی کرتے ہوئے پروگرام کے ملازمین کو عمارت سے باہر نکال دیا گیا۔ باہر نکالے جانے والوں میں وہ بھی شامل تھے۔
ہفتے کو طالبان کی وزارتِ تعلیم نے ایک بیان میں کہا کہ ''تمام مرد اساتذہ اور طلبہ کو اپنے تعلیمی اداروں میں جانا چاہیے۔'' تاہم انہوں نے خواتین اساتذہ یا طالبات کا ذکر نہیں کیا۔
خیال رہے کہ طالبان کی جانب سے قائم کی گئی عبوری حکومت میں بھی خواتین کو نمائندگی نہ دینے اور دیگر طبقات کو شامل نہ کرنے پر طالبان کو امریکہ سمیت عالمی برادری کی تنقید کا سامنا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک طالبان پر زور رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں ایسی حکومت کے قیام کے لیے کام کریں جو تمام طبقات کی نمائندہ حکومت ہو۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔