کابل میں جمعے کے روز سینکڑوں لڑکیوں نے ایک ترک فاؤنڈیشن کے سکولوں میں داخلے کے لئے امتحان میں شرکت کی۔ افغان ترک سکول سسٹم کے ایک عہدیدار رضا پارسا کا کہنا ہے کہ اس امتحان میں 3500 طلباء نے شرکت کی جن میں 40% لڑکیاں تھیں۔
یہ اقدام ایسے میں کیا گیا ہے جب افغانستان میں طالبان کی حکومت اگست میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے لگائی گئی پابندی کے تحت، ساتویں جماعت سے اوپر یعنی 13 برس سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو واپس سکول جانے کی اجازت دینے میں تاخیر کر رہی ہے۔
کابل میں ترک سفارت خانے میں ایجوکیشن قونصلر چنگیز ازمیر نے داخلے کے اس امتحان کے موقعے پر ایک پریس کانفرنس میں کہا، "ہم چاہتے ہیں تمام لڑکیوں کو تعلیم دی جائے اور یہی خواہش ہمارے صدر اور ہماری حکومت کی ہے اور افغان شہریوں کی بھی"۔
اس سے پہلے افغان ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم پر بات چیت کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ طالبان افغانستان میں لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن، یہ واضح نہیں ہے کہ ملک میں اسکول کب کھلیں گے۔
ترک افغانستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سربراہ صالح ساغر نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ترکی کے وزیر خارجہ نے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے گزشتہ ماہ استنبول کے دورے کے موقعے پر ایک ملاقات میں لڑکیوں کے سکول کھولنے کا معاملہ اٹھایا گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ترکی کے سفیر نے بھی کابل میں طالبان حکام سے کئی بار اس معاملے پر بات کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نے شمالی صوبوں آقچہ۔ شاہبرگان اور مزارِ شریف میں لڑکوں کے سکولوں کے ساتھ لڑکیوں کے تین سکول قائم کرنے کی اجازت دی ہے۔
فاؤنڈیشن کی معلومات کے مطابق، ترکی-افغانستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے کابل۔بلخ۔جوزجان۔ہرات اور قندھار صوبے میں قائم کیے گئے اسکولوں میں چھ ہزار کے قریب طلباء داخلہ لے رہے ہیں جن میں اٹھارہ سو لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
عالمی سطح پر ان پر اس بارے میں دباؤ میں اضافے کے بعد طالبان کا کہنا ہے کہ وہ یہ تصدیق کرنے کے بعد کہ ان کی تحریک کے مطابق موزوں اسلامی معیارات کے انتظامات موجود ہیں، بڑی عمر کی لڑکیوں کو دوبارہ کلاسوں میں جانے کی اجازت دے دیں گے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، غیر سرکاری طور پر افغانستان کے بہت سے حصوں میں بڑی عمر کی لڑکیوں کے سکول جانے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے جب کہ سرکاری سطح پر طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی ملکی سطح پر نظام لانے پر کام کر رہے ہیں۔
لڑکیوں کے داخلہ ٹیسٹ کے موقعہ پر طالبان کی وزارتِ تعلیم کے ایک عہدیدار احسان خطیب نے بھی شرکت کی اور ترک حکومت کا شکریہ ادا کیا۔
ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سربراہ صالح ساغر نے رائٹرز کو بتایا کہ افغان۔ترک سکولوں کے نصاب میں تبدیلی کر دی گئی ہے اور موسیقی، تھئیٹر اور ڈانس کے شعبے طالبان عہدیداروں کی درخواست پر بند کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ طالبان پر منحصر ہے کہ وہ انہیں دوبارہ کھولتے ہیں یا نہیں۔
ساغر کا کہنا تھا کہ ان کی فاؤنڈیشن میزبان ملک کے کلچر اور ضابطوں کا احترام کرتی ہے
افغان۔ترک سکول افغانستان میں چوٹی کے سکولوں میں شمار کئے جاتے ہیں اور ان میں داخلہ بہت مشکل سے ملتا ہے۔
( اس خبر میں کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)