افغانستان میں طالبان نے ٹی وی چینلز کو ان ڈراموں کی نشریات روکنے کا حکم دیا ہے جن میں خواتین فن کار کوئی کردار نبھا رہی ہیں۔ دوسری جانب خواتین صحافیوں کے لیے حجاب پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
طالبان نے یہ حکم نامہ اتوار کو جاری کیا ہے۔ طالبان کی وزارت امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی جانب سے عائد کی گئی یہ پابندیاں ان کی نئی آٹھ نکاتی ہدایات کا حصہ ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ ملک میں خواتین کے حقوق کو محدود کیا جا رہا ہے۔
طالبان کی نئی ہدایات کے مطابق فلموں اور ڈراموں میں خواتین فن کاروں کو تو سرے سے کام کرنے کی اجازت ہی نہیں ہو گی۔ لیکن ٹیلی ویژن اسٹیشنز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسے مردوں کو بھی اسکرین پر نہ دکھائیں جنہوں نے اپنا جسم سینے سے گھٹنوں تک مکمل نہ ڈھانپا ہو۔
وزارت نے ان نئے قوانین کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد "غیر اخلاقی مواد" اور ایسی ویڈیوز نشر ہونے سے روکنا ہے جو "شریعت اور افغان اقدار کے خلاف ہوں۔"
وزارتِ امر بالمعروف ونہی عن المنکر نے کابل کے ٹی وی نمائندوں کو نشریات کے دوران ان اصولوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
علاوہ ازیں وزارت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ "ایسی غیر ملکی اور مقامی فلمیں جو افغانستان میں غیر ملکی ثقافت، روایات اور بے حیائی کو فروغ دیتی ہوں، انہیں نشر نہ کیا جائے۔"
وزارت نے طنز و مزاح پر مبنی ان ٹی وی شوز پر بھی پابندی عائد کی ہے جن میں انفرادی طور پر "کسی کی بے عزتی یا وقار مجروح ہو۔"
طالبان کے جاری کردہ نئے حکم نامے پر خواتین فن کار صحرا کریمی کا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔
افغان فلم ساز اور فن کار صحرا کریمی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "طالبان نے خواتین کی تعلیم، کام اور کھیل پر پابندی لگانے کے بعد اب سنیما میں بھی خواتین پر پابندی عائد کر دی ہے جب کہ خاتون صحافیوں کے لیے حجاب لازم قرار دیا ہے۔"
انہوں نے کہا وہ حیران ہیں کہ وہ لوگ جو اس بات پر قائل تھے کہ طالبان کی اصلاح ہو چکی اب وہ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
افغان نژاد امریکی فلم ساز اور ایکٹیوسٹ آریانہ دلاوری کا کہنا ہے کہ طالبان کی منافقت حیران کن ہے، ان کی ساری بحث مغربی سامراج کے خلاف تھی اور پھر بھی وہ اپنے مقاصد کے لیے سفید فام صحافیوں سے روابط قائم رکھتے ہیں اور صرف اپنے صحافیوں کو مارتے اور افغان خواتین کو خاموش کرواتے ہیں۔
واضح رہے کہ رواں برس اگست میں طالبان نے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ "شریعت کے مطابق" ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔ لیکن افغانستان کے بیش تر صوبوں میں اب بھی لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول جانے پر پابندی عائد ہے۔
طالبان کے افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد تعلیم حاصل کرنے سے متعلق بھی نئی پالیسی جاری کی تھی۔ جس کے تحت خواتین طلبا کو خواتین استاد جب کہ مرد طلبا کو مرد استاد کو ہی پڑھانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خواتین کو کلاس میں داخلے کی اجازت صرف اس وقت ہی دی جائے گی جب وہ عبایا پہنیں، نقاب کریں اور طلبہ سے علیحدہ بیٹھیں۔
یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت میں بھی کوئی خاتون شامل نہیں اور نہ ہی اس حکومت کو اب تک کسی ملک نے تسلیم کیا ہے۔
امریکہ اور عالمی برادری طالبان پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ایک جامع سیاسی نظام کے تحت افغانستان پر حکومت کریں جس میں تمام افغان شہریوں، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔