نیٹو نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں تعینات اُن کی افواج پر اس سال اب تک افغان نیشنل آرمی کے اہلکاروں کی جانب سے 21 مہلک حملے کیے جا چکے ہیں۔
اتحادی افواج کے ترجمان جرمن بریگیڈیئر جنرل گنٹر کاٹز نے پیر کو کابل میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس نوعیت کے ہر ایک واقعے کی انتہائی سنجیدگی سے تحقیقات کی جاتی ہیں۔
’’ہمیں تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ذاتی رنجش، ذہنی دباؤ اور اس نوعیت کے دیگر عوامل ان المناک واقعات کی عمومی وجوہات ہیں۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ عسکریت پسند تنظیمیں دعویٰ کرتی آئی ہیں کہ افغان فوج میں سرایت کرنے والے ان کے جنگجو یہ کارروائیاں کرتے ہیں، لیکن تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ ایسے واقعات کی تعداد ’’ایک ہندسے پر مشتمل ہے جو بہت کم ہے‘‘۔
’’ہم چھان بین کے بعد اپنے نظام میں بہتری لارہے ہیں جبکہ دیگر ایسے اقدامات کے ذریعے بھی ان واقعات میں کمی کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘‘
لیکن بریگیڈیئر جنرل گنٹر کاٹز کا کہنا تھا کہ یہ واقعات افغانستان میں مقامی و غیر ملکی افواج کے تعلقات سے متعلق مجموعی صورت حال کے عکاس نہیں۔
’’تقریباً پانچ لاکھ (افغان) فوجی اور پولیس اہلکار افغانستان کے محفوظ اور روشن مستقبل کے لیے ہمارے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔‘‘
اتحادی افواج کے ترجمان جرمن بریگیڈیئر جنرل گنٹر کاٹز نے پیر کو کابل میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس نوعیت کے ہر ایک واقعے کی انتہائی سنجیدگی سے تحقیقات کی جاتی ہیں۔
’’ہمیں تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ذاتی رنجش، ذہنی دباؤ اور اس نوعیت کے دیگر عوامل ان المناک واقعات کی عمومی وجوہات ہیں۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ عسکریت پسند تنظیمیں دعویٰ کرتی آئی ہیں کہ افغان فوج میں سرایت کرنے والے ان کے جنگجو یہ کارروائیاں کرتے ہیں، لیکن تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ ایسے واقعات کی تعداد ’’ایک ہندسے پر مشتمل ہے جو بہت کم ہے‘‘۔
’’ہم چھان بین کے بعد اپنے نظام میں بہتری لارہے ہیں جبکہ دیگر ایسے اقدامات کے ذریعے بھی ان واقعات میں کمی کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘‘
لیکن بریگیڈیئر جنرل گنٹر کاٹز کا کہنا تھا کہ یہ واقعات افغانستان میں مقامی و غیر ملکی افواج کے تعلقات سے متعلق مجموعی صورت حال کے عکاس نہیں۔
’’تقریباً پانچ لاکھ (افغان) فوجی اور پولیس اہلکار افغانستان کے محفوظ اور روشن مستقبل کے لیے ہمارے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔‘‘