افغان حکام نے بتایا ہے کہ امریکی فضائی فوج کی حمایت کے ساتھ ایک ماہ سے پاکستانی سرحد کے ساتھ مشرقی صوبے میں جاری فوجی کارروائی کے دوران داعش کے کم از کم 250 شدت پسند ہلاک کئے گئے ہیں۔
ایک علاقائی فوجی ترجمان نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائی ننگرہار کے کوٹ اور دہہ بالا کے اضلاع میں جاری رہی، جہان سب سے زیادہ ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں۔
ترجمان کے مطابق، علاقے کے متعدد یہات سے داعش کے شدت پسندوں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ اُنھوں نے دولتِ اسلامیہ کے لیے مشرق وسطیٰ میں قائم اس جہادی گروپ کے لیے استعمال ہونے والا عربی کا مخفف، ’داعش‘ استعمال کیا۔
انسدادِ دہشت گردی کی کارروائی کے دوران، جسے ’شاہین 20‘ قرار دیا گیا تھا، 26 یرغمالی چھڑائے گئے اور کم از کم 15 شدت پسندوں کو پکڑ لیا گیا۔ یہ بات ننگرہار میں’ 201 سیلاب فوجی کور‘ کے ایک بیان میں بتائی گئی ہے۔
امریکی فوج نے کہا ہے کہ خاص طور پر صوبے کے جنوبی اضلاع میں داعش کے حامی سرگرم ہیں، ایسے میں جب ذرائع نے شدت پسند گروپ کے خلاف حالیہ افغان کامیابیوں کو تسلیم کیا۔
دو برس قبل، داعش کے خلاف اِس علاقائی کارروائی کا آغاز کیا گیا اور ننگرہار کے تقریباً 11 اضلاع میں شدت پسند گروپ کے تقریباً 3000 افراد متحرک رہے ہیں۔ یہ بات امریکی برگیڈیئر جنرل، چارلس کلیولینڈ نے بتائی ہے، جو افغانستان مین نیٹو کے ’رِزولوٹ سپورٹ مشن‘ کے ترجمان ہیں۔
کلیولینڈ کے مطابق، گذشتہ ایک برس کے دوران کی جانے والی مشترکہ کارروائیوں میں لڑاکوں کی ایک بڑی تعداد کو ہلاک کیا گیا ہے، جس میں داعش کی چوٹی کی قیادت شامل ہے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ داعش کے تقریباً 700 ارکان ہیں، شاید اس کارروائی کے بعد اُن کی تعداد کم ہوگئی ہو، اور وہ اب جنوبی ننگرہار کے تین سے بھی کم اضلاع تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں‘‘۔
ایسے میں جب امریکی فوج کا کہنا ہے کہ دہشت گرد گروپ ننگرہار اور ہمسایہ کُنڑ صوبے کے چند حصوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے، جس کے بارے میں افغان حکام کا کہنا ہے کہ داعش دیگر صوبوں میں بھی موجود ہے، جِن میں کشیدگی کا شکار جنوبی صوبہٴ زابل بھی شامل ہے۔