صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے بدھ کے روز کہا ہے کہ وہ افغانستان سے مترجموں، ترجمانوں اور دیگر شعبوں میں امریکی فوج کی مدد کرنے والے افغان باشندوں اور ان کے خاندانوں کو نکالنے کے سلسلے میں پروازیں شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
وائٹ ہاؤس کے اعلان کے مطابق ان پروازوں کے ذریعے ان افغان باشندوں کو ملک سے باہر منتقل کیا جائے گ، جو وطن چھوڑنے کی خواہش رکھتے ہیں اور خصوصی امیگرنٹ ویزا کے قواعد و ضوابط پر پورے اترتے ہیں اور جن کی درخواستیں منظوری کے عمل سے گزر رہی ہیں۔
تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان خصوصی پروازوں کے ذریعے جانے والوں کی منزل کیا ہو گی اور یہ سوالات بھی موجود ہیں کہ ان افراد کو طیاروں تک بحفاظت پہنچانے کو یقینی کیسے بنایا جائے گا، جب کہ ملک بھر میں طالبان تیزی سے پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ہم ان لوگوں کی قدر کرتے ہیں اور ان کے اس کردار کو ستائش کی نظر سے دیکھتے ہیں جو انہوں نے گزشتہ کئی برسوں کے دوران ہمارے لیے ادا کیا۔
امریکی اور نیٹو فورسز کے لیے سروسز مہیا کرنے والوں کو ملک سے نکالنے کے لیے پروازوں کے نظام اوقات کی تصدیق اس وقت ہوئی جب افغانستان میں تین سال تک کمانڈر کی خدمات سرانجام دینے والے جنرل آسٹن سکاٹ ملر نے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوشی کے بعد بدھ کے روز صدر بائیڈن سے ملاقات کی۔
جنرل ملر نے افغانستان میں اپنے قیام کے آخری ایام میں ملک کے مختلف حصوں میں اضلاع کا قبضہ تیزی سے طالبان کے ہاتھوں میں جاتے دیکھ کر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک یقینی طور پر خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال غیر ملکی افواج کے لیے خدمات سر انجام دینے والوں کی زندگیوں کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔
لوتھرن امیگریشن اینڈ ریفیوجی سروس کے صدر اور سی ای او کرش او مارا وگناراجہ کہتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کے افغان مترجموں کو ملک سے باہر نکالنے کے منصوبے کے زیادہ تر حصوں کے بارے میں معلومات موجود نہیں ہیں، جس میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کی انتظامیہ کابل سے باہر کے علاقوں میں رہنے والوں کی ملک سے نکلنے میں مدد کیسے کریں گی، جب کہ طالبان نے ملک کے بڑے بڑے حصوں پر تیزی سے قبضہ کیا ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں پر۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ابھی تک بہت سے سوالوں کا جواب نہیں دیا گیا جس میں یہ بھی شامل ہے کہ کون سے افراد اور کتنے لوگ افغانستان سے منتقلی کی اہلیت پر پورے اترتے ہیں۔ اور کابل سے باہر رہنے والوں کو دارالحکومت تک بحفاظت رسائی کیسے ملے گی۔ اور یہ کہ انہیں کن ملکوں میں بھیجا جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں اپنے اتحادیوں کے متعلق انسانی حقوق سے منسلک سنجیدہ نوعیت کےتحفظات ہیں، جو افغان جنگ کے دوران ہمارے اہم شراکت دار رہے ہیں۔
ان کے گروپ نے امریکہ میں ہزاروں افغان باشندوں کی امریکہ میں آبادکاری میں مدد فراہم کی ہے۔
امریکی انتظامیہ کے ایک عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ منتقلی کے اس پروگرام کے لیے فوجی طیاروں کی بجائے چارٹرڈ جہاز استعمال کرے گا۔
کابل میں امریکہ کے سفارت خانے نے مارچ میں 229، اپریل میں 356 اور مئی میں 619 سپیشل امیگرنٹ ویزے جاری کیے تھے۔ صدر بائیڈن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکی حکومت افغان مترجمین کو نکالنے کے لیے 2500 خصوصی امیگرنٹ ویزے جاری کرے گی۔
ایک اندازے کے مطابق 18000 افغان امریکی فوج کے ساتھ بطور مترجم، ڈرائیور اور دیگر نوعیت کی خدمات انجام دے چکے ہیں اور ویزوں کے لیے درخواستیں دینے کے بعد وہ ان کی منظوری کا عمل مکمل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
اس سے قبل افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے لیے مترجم اور دیگر شعبوں میں خدمات سرانجام دینے والوں نے کابل میں مظاہرے کیے تھے اور کہا تھا کہ فورسز کے انخلا کے بعد وہ اور ان کے خاندان طالبان کے رحم و کرم پر ہوں گے اور انہیں پہلے ہی جان سے مار دینے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں امیگریشن دے کر امریکہ منتقل کیا جائے۔
تاہم، طالبان یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کریں گے جو اپنی وفاداریاں افغانستان کی جانب منتقل کر لیں گے۔
وائٹ ہاؤس کے لئے وائس آف امریکہ کی نمائندہ پیٹسی وڈاکوسوارا کی رپورٹ کے مطابق، سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے اس بارے میں یہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں کہ پروازیں کب سے شروع ہوں گی، لیکن وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اسی مہینے کے دوران پروازیں شروع کرنے کے صدر کے وعدے کو پورا کیا جائے گا۔
صدر بائیڈن 31 اگست تک فوجی انخلا مکمل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ واضح کر چکے ہیں کہ امریکہ کو اس بارے میں پورا یقین ہے کہ افغانستان کی مسلح افواج کے پاس اپنے ملک کا دفاع کرنے کے لئے وسائل اور صلاحیت موجود ہے اور یہ کہ اس تنازعے کو بالآخر مذاکرات کی میز پر حل کرنا پڑے گا۔
تاجکستان، ترکمانستان اور کوسوو میں سفارتی مشن کی قیادت کرنے والی امریکی سفارت کار ٹریسی جیکب سن، جو اس وقت اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے کوآرڈینیشن یونٹ کی سربراہ ہیں، افغان جنگ میں امریکہ کے اتحادی پناہ گزینوں کے بارے میں صدر بائیڈن کے وعدے کو عملی جامہ پہنائیں گی۔ اس یونٹ میں دفاع اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے نائب مشیر اور نیشنل انسداد دہشت گردی مرکز کے سابق سربراہ، رس ٹریورس افغان آپریشن کے اتحادی پناہ گزینوں سے متعلق اجتماعی پالیسی کے عمل کو مربوط کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے بدھ کی وائٹ ہاوس بریفنگ میں اس سلسلے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ہم ان لوگوں کی منتقلی کے لیے خصوصی پروازیں شروع کر رہے ہیں، جو امیگریشن کے قواعد کے تحت منتقلی کی شرائط پوری کرتے ہیں اور افغانستان چھوڑنے کے خواہش مند ہیں۔
انہوں نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر مزید تفصیلات بتانے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جولائی کے آخری ہفتے سے شروع ہونے والی پروازیں جاری رہیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ اگست کے آخر میں فوجی انخلا مکمل ہونے سے قبل ہی منتقلی کے ضابطے پورے کرنے والوں کو افغانستان سے باہر نکال لیا جائے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا انہیں کسی تیسرے ملک بھی منتقل کیا جا سکتا ہے جس میں امریکہ کا ایک علاقہ گوام بھی شامل ہے، جین ساکی کا کہنا تھا کہ میں نہ تو اس کی تصدیق کر سکتی ہوں اور نہ ہی اس سے انکار کر سکتی ہوں۔ لیکن، یہ بات واضح ہے کہ جن لوگوں کو افغانستان سے نکالا جا رہا ہے، ان کی سیکیورٹی ہمارے لیے سب سے اہم ہے اور ہم اس پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔