افغانستان میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال اور طالبان کی پیش قدمی کے باعث بھارت کی ممکنہ افغان پالیسی پر بھی بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ قندھار میں بھارتی قونصل خانے سے عملہ واپس بلانے اور طالبان کے ساتھ بیک ڈور رابطوں کی خبروں کے بعد ماہرین خطے میں بڑی تبدیلیوں کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔
افغانستان کے شہر قندھار میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی کے باعث بھارت نے چند روز قبل اپنے قونصل خانے سے بھارتی عملہ واپس بلا لیا تھا جب کہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طالبان نے اسپن بولدک میں افغانستان کو پاکستان سے ملانے والی شاہراہ کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا ہے۔
قندھار سمیت افغانستان کے مختلف شہروں میں قائم بھارتی قونصل خانوں کے حوالے سے پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ یہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ تاہم بھارت ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے ان قونصل خانوں کو افغانستان اور بھارت کے درمیان بہترین تعلقات کی علامت قرار دیتا رہا ہے۔
نئی دہلی میں مقیم سینئر صحافی اور سیکیورٹی امور کے ماہر نیتن گوکھلے کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے افغانستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا تعلق سیکیورٹی امور سے نہیں تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ امریکہ کے اچانک انخلا اور طالبان کی غیر معمولی پیش رفت کا سب سے زیادہ نقصان بھارت کو پہنچا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بھارت نے افغانستان میں انفراسٹرکچر، تعلیم، بجلی اور ڈیموں کی تعمیر جیسے ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں پر کام کیا۔
گوکھلے کے مطابق حالات کو بھانپتے ہوئے بھارت نے طالبان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کر دیا ہے اور گزشتہ ڈیڑھ برس سے بھارتی حکام، طالبان کے ساتھ ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ تاہم بھارتی حکومت نے اس بابت سرکاری سطح پر کبھی تصدیق نہیں کی۔
بھارتی تجزیہ کار کا مزید کہنا تھا کہ بھارت نے کبھی بھی افغانستان میں اس مناسبت سے سرمایہ کاری نہیں کی کہ انہیں اس کا ریٹرن ملے گا بلکہ بھارت اور افغانستان کے تعلقات کی ایک تاریخ ہے۔
اُن کے بقول نائن الیون کے بعد بھارت نے جب افغانستان میں اپنا سفارتی مشن شروع کیا تو ان کا مقصد نئی افغان نسل کے دل جیتنا تھا۔ ان کے مطابق ابھی افغانستان کی صورتِ حال واضح نہیں ہے تاہم اگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تو بھارتی سرمایہ کاری متاثر ہو گی۔
یاد رہے کہ بھارت نے 1996 میں طالبان کے کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اپنا سفارت خانہ مکمل طور پر بند کر دیا تھا۔ تاہم اب کابل میں سفارت خانے کے علاوہ مزار شریف، ہرات، قندھار اور جلال آباد میں قونصل خانے قائم ہیں۔
'بھارت نے طالبان کے ساتھ بات چیت میں تاخیر کی'
ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت نے حالات کی نزاکت کو سمجھنے میں تاخیر سے کام لیا۔ کیوں کہ ایران، امریکہ اور روس جیسے ممالک جن کی طالبان سے کبھی بھی نہیں بنی انہوں نے بھی طالبان کے ساتھ نہ صرف کامیاب مذاکرات کیے بلکہ سفارتی تعلقات بھی قائم کیے۔
نیتن گوکھلے کا کہنا تھا کہ بھارت نے افغان حکومت کی شروع دن سے ہی حمایت کی اور ایسا ممکن نہیں تھا کہ بیچ منجدھار میں انہیں چھوڑ دیا جاتا۔ کیوں کہ خطے کی صورتِ حال تیزی سے بدل رہی ہے۔
گوکھلے کے مطابق اب بھارت کو صورتِ حال کا ازسرِ نو جائزہ لینا ہو گا کیوں کہ اب بھارت کی یہ خواہش ہو گی کہ وہ 1996 والی غلطی دوبارہ نہ دہرائے۔
اتوار کو بھارت کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان ارندم باگچی نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ قندھار کے اطراف میں شدید لڑائی کے باعث بھارت نے وقتی طور پر قونصل خانے سے اپنا بھارتی اسٹاف واپس بلا لیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بھارت صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے جب کہ فی الحال قونصل خانے کے اُمور افغان اسٹاف سرانجام دے گا۔
ارندم باگچی نے افغانستان میں تشدد کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں عدم استحکام کا براہِ راست اثر خطے کی مجموعی سیکیورٹی پر پڑتا ہے۔
بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ بھارت کے قندھار اور جلال آباد میں قو نصل خانے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ ابھی حالات کسی منطقی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔ بھارت نے بھی طالبان کے ساتھ رابطے بحال کیے ہیں۔ اس لیے وہ چاہیں گے کہ افغانستان میں کام جاری رکھیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت نے گزشتہ 20 برسوں میں جو اثاثے افغانستان میں بنائے تھے وہ اب خطرے میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چوں کہ بھارتی قونصل خانے پاکستان کے سرحدی علاقوں کے ساتھ تھے اس لیے وہ زیادہ پر خطر تھے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ سی پیک اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں اتنی آسانی سے ٹلنے والی نہیں ہیں اور پاکستان کو اپنی سیکیورٹی پر مزید زور دینا ہو گا۔
بھارتی حکام پاکستان کے ان الزامات کے جواب میں یہ کہتے رہے ہیں کہ پاکستان کشمیر کے راستے بھارت میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو ہوا دیتا ہے۔ لہذٰا بھارت کے افغانستان میں قونصل خانوں میں اس کی الزام تراشیاں بلا جواز ہیں۔
کابل کی کاردان یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات سے منسلک پروفیسر سلطان محمود اجمیری کا کہنا ہے کہ بھارت نے افغانستان میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے اور اس کا اس طرح سے افغانستان سے نکلنا صرف بھارت کے لیے ہی نہیں بلکہ افغان عوام کے لیے بھی تشویش کا باعث ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ افغانستان کے عوام بھارتی اقدامات کی قدر کرتے ہیں۔ بھارت نے نہ صرف افغان عوام کے لیے سڑکیں، ڈیم اور تعلیمی منصوبوں پر کام کیا بلکہ افغان پارلیمنٹ کی بلڈنگ بھی بھارت کی وساطت سے تعمیر ہوئی۔
سلطان محمود اجمیری کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں حالات کبھی بھی صحیح معنوں میں نہیں سنبھل سکے۔
اُں کے بقول روزگار کے مواقع پہلے ہی بہت کم ہیں۔ ایسے میں اگر سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے بھارت افغانستان سے نکلتا ہے تو اس سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو گا اور نوجوان نسل مزید انتشار کا شکار ہو سکتی ہے۔