ایک سال قبل دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہونے کے بعد توقعات کے برعکس طالبان باغیوں کے حملوں میں تیزی دیکھی گئی اور اب طالبان نے معاہدے کے مطابق غیرملکی افواج کا انخلا نہ ہونے کی صورت میں حملوں میں شدت لانے کی دھمکی دی ہے۔
برسلز میں نیٹو کے وزرائے دفاع کا اجلاس جاری ہے جس میں افغانستان میں نیٹو کے مشن کے مستقبل کے حوالے سے اہم فیصلہ کیا جائے گا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے بدھ کے روز ایک بیان کہا کہ نیٹو وزرائے دفاع افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے موجود رہنے کے حوالے سے اہم فیصلہ کریں گے۔
افغان صدر اشرف غنی نے بین الاقوامی اور علاقائی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان پر دباؤ بڑھائیں۔ وہ 2020 کی جنیوا کانفرنس میں طے ہونے والے اقدامات پر عمل درآمد کے جائزے سے متعلق ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
افغان تجزیہ کار امراللہ امان کا کہنا ہے کہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل اور امریکی حکام کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ملکی فوجیں افغانستان میں یکم مئی کے بعد بھی موجود رہیں گی۔
ایک اور تجزیہ کار نجیب آزاد کا کہنا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کی موجودگی ملک میں استحکام کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق افغانستان میں سیکیورٹی کے قومی ڈائریکٹریٹ نے افغانستان میں دو روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا، جس میں پاکستان سمیت پانچ علاقائی ممالک اور پانچ وسطی ایشیائی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے چھ سربراہوں نے شرکت کی۔ افغان خفیہ سروس این ڈی ایس کے سربراہ احمد ضیا سراج کا کہنا ہے کہ یہ کانفرنس پیر اور منگل کے روز منعقد ہوئی جس میں کانفرنس میں شریک ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان تعاون پر غور کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا نمائندہ بھی اجلاس میں موجود تھا۔
طالبان کی کارروائیوں کے بارے میں خبررساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے امریکی افواج اور نیٹو قیادت میں غیر لڑاکا ریزولیوٹ سپورٹ مشن کے سربراہ جنرل سکاٹ مِلر نے کہا ہے کہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کا معاہدہ کیا تھا، جس کے عوض تمام فریقوں کو تشدد میں کمی لانا تھی، لیکن طالبان کی جانب سے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
جنرل ملر کا کہنا تھا کہ طالبان حملوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے وہ حالات ہی پیدا نہیں ہو رہے جس سے آگے بڑھنے میں مدد مل سکے۔
جنرل ملر کا کہنا تھا کہ جاری لڑائی اس بات کا اشارہ ہے کہ موسم بہار میں طالبان کے حملوں میں پہلے کی نسبت زیادہ شدت آئے گی۔ بہت سے سفارت کار اس تشدد کو دوحہ معاہدے کی روح کے منافی سمجھتے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ طالبان یہ تشدد ایک ایسے وقت میں روا رکھے ہوئے ہیں، جب حالیہ ہفتوں میں دوحہ میں جاری مذاکرات زیادہ تر تعطل کا شکار رہے، اور طالبان لیڈر قطر سے جا چکے ہیں، جن سے ان خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ مذاکرات بغیر نتیجہ ختم ہو جانے کے قریب ہیں۔
افغان حکومت کے دو ذرائع نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ افغان حکومت نے سیکیورٹی فورسز کو ہدایات جاری کی ہیں کہ فوج کی تشکیل و تعمیر نو کی جائے، اور موسمِ بہار میں شدید حملوں سے نمٹنے کیلئے ٹھوس حکمت عملی تیار کی جائے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ افغانستان کی فوج اور پولیس جیسے مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والی سپیشل فورسز کو ایک کمان کے نیچے کام کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اہم علاقوں میں بہت تجربہ کار کمانڈر تعینات کئے گئے ہیں، اور سیکیورٹی فورسز زیادہ سے زیادہ فضائی کارروائیوں کے منصوبے بنا رہی ہیں تا کہ بری فوج کا کم سے کم جانی نقصان ہو۔
دوسری جانب چار طالبان ذرائع نے بتایا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں زیادہ تر طالبان کمانڈر اپنے سالانہ تربیتی سیشن ادھورے چھوڑ کر واپس آ رہے ہیں کیونکہ انہیں شدید لڑائی کیلئے میدان جنگ میں واپس بلایا جا رہا ہے۔
صوبہ قندوز کے ایک قبائلی سردار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں طالبان کے خطبوں میں تبدیلی آئی ہے، خصوصی طور پر نماز جمعہ کے دوران وہ غیر ملکی فورسز کے خلاف جنگ پر خطبہ دے رہے ہیں، اور کھلے عام لوگوں کو جنگ میں شامل ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔ قبائلی سردار کا کہنا تھا کہ یہ ایک واضح پیغام ہے کہ وہ موسم بہار میں نئی جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
ایک طالبان جنگجو نے رائٹرز کو بتایا کہ اس کا گروپ تیاریاں کر رہا ہے اور اگر غیر ملکی افواج کا انخلا نہ ہوا تو پھر امریکہ، نیٹو اور دنیا کو ایک خطرناک جنگ کا سامنا ہو گا، ایک ایسی جنگ جو گزشتہ 20 برسوں میں نہیں لڑی گئی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ افغانستان سے متعلق اپنے منصوبوں پر نظر ثانی کر رہی ہے کہ کیا اسے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے طالبان کے طے کردہ معاہدے کے مطابق یکم مئی تک اپنی افواج کا انخلا کرنا ہے یا نہیں۔