ایک معروف امریکی اخبار نے کہا ہے کہ افغان حکومت ملک میں مفلس و بے کس خواتین کے لیے قائم عارضی پناہ گاہوں کے بارے میں نئے قوانین بنانے پر غور کر رہی ہے جس کے تحت ان میں رہنے کے لیے خواتین کو سرکاری عہدیداروں سے اجازت لینا ہوگی۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق مجوزہ قوانین کے تحت اگر عہدے داروں کا ’پینل‘ کسی خاتون کو پناہ میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا تو پھر یہ ہی عہدے دار اس بات کا بھی فیصلہ کریں گے کہ اُس عورت کو گھر واپس بھیجا جائے یا جیل۔ اخبار کے مطابق گھر بھیجے جانے کی صورت میں اس بات کا خدشہ ہے کہ خاتون کو مارا پیٹا جائے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بین الاقوامی تنظیموں، انفرادی طور پر مالی معاونت فراہم کرنے والے افراد اور مغربی حکومتوں کے تعاون سے اس وقت خواتین کے لیے ایسے 14 مراکز یا پناہ گاہیں قائم ہیں۔ وزرات خواتین کے نئے قوانین کے تحت یہ تمام پناہ گاہیں حکومت کے زیر انتظام ہوں گی۔
خواتین کے حقوق سے متعلق ایک افغان غیر سرکاری تنظیم کی ڈائریکٹر منیزا نادری، جو تین ایسی پناہ گاہیں اور مشاورت کے پانچ مراکز چلا رہی ہیں، نے اخبار کو بتایا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتی ہیں کہ حکومت نئے قوانین پر کیوں غور کر رہی ہے مگر اُن کے بقول اس مقصد ”طالبان کو خوش“ کرنا بھی ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1