افغانستان کے دارالحکومت کابل میں رواں ہفتے ہونے والے ٹرک بم حملے کے خلاف احتجاج کرنے والے مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔
جمعے کو کابل میں سیکڑوں افراد اس مقام کے نزدیک جمع ہوئے جہاں بدھ کو ہونے والے دھماکے میں 80 سے زائد افراد ہلاک اور 450 زخمی ہوگئے تھے۔
مشتعل مظاہرین نے بینر اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے مستعفی ہونے کے مطالبات درج تھے۔
مظاہرین نے افغان حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے صدارتی محل کی جانب بڑھنے کی کوشش کی جسے پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ اور واٹر کینن سے ناکام بنادیا۔
اس موقع پر پولیس اہلکاروں اور کئی مظاہرین کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی جب کہ مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا۔
بدھ کو کابل میں ہونے والا حملہ افغانستان کی تاریخ کے چند بدترین دہشت گرد حملوں میں سے تھا جس کی ذمہ داری افغان حکام نے پاکستان پر عائد کی ہے۔ تاہم پاکستان نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے حملے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
جمعے کو مظاہرے میں حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اور خواتین کی بڑی تعداد بھی شریک تھی۔ خبر رساں ایجنسی رائٹرزسے گفتگو کرتے ہوئے مظاہرے میں شریک ایک خاتون نیلوفر نیلگوں کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو افغان حکومت پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے کیوں کہ وہ حکومت کرنے کی اہل نہیں۔
افغانستان سے بیشتر غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلا کے تین سال بعد بھی ملک میں امن و امان کی صورتِ حال خاصی مخدوش ہے اور افغان حکومت کو ملک میں اپنی رِٹ قائم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق افغانستان کا لگ بھگ 40 فی صد رقبہ یا تو طالبان جنگجووں کے قبضے میں ہے یا اس پر قبضے کے لیے طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تگ و دو جاری ہے۔