اسلام آباد —
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین ’یو این ایچ سی آر‘ کی ایک جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مقیم لگ بھگ 82 فیصد افغان مہاجرین اپنے ملک واپس جانے پر رضا مند نہیں ہیں۔
پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے سربراہ نیل رائٹس نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ ان کے ادارے کی طرف سے رضا کارانہ طور پر وطن واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کو دی جانے والی روز مرہ استعمال کی اشیاء میں حال ہی میں مزید اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد سے ان کی واپسی کے عمل میں تیزی آئی ہے۔
نیل رائٹس نے بتایا کہ وطن واپس جانے والے افغانوں نے اپنے ملک میں سلامتی کی صورت حال سے متعلق خدشات کا اظہار کیا ہے لیکن ان کے بقول یہ ضروری نہیں کہ افغانستان میں امن و امان کی صورتحال واپس جانے والے پناہ گزینوں کے لیے سب سے بڑا خدشہ ہو۔
’’افغان پناہ گزینوں کو ایک بڑا خدشہ یہ ہے کہ جب وہ اپنے وطن واپس جائیں گے تو کیا وہ اپنے خاندان کی ضروریات کو پورا کر سکیں گے یا نہیں اور رہنے کے لیے کیا انھیں گھر دستیاب ہو سکے گا یا نہیں۔‘‘
تقریب سے خطاب میں وفاقی وزیر برائے سرحدی امور شوکت اللہ نے کہا کہ حکومت افغانوں کی رضا کارانہ واپسی چاہتی ہے اور ان کے بقول رواں سال لگ بھگ 72 ہزار افغان پناہ گزین اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔
’’ہم چاہتے ہیں کہ افغان پناہ گزین اپنے وطن جا کر افغانستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔‘‘
پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اندارج شدہ افغان پناہ گزینوں کی تعداد لگ بھگ 17 لاکھ ہے اور وفاقی وزیر شوکت اللہ کے مطابق ملک میں مقیم 10 لاکھ سے زائد افغانوں کے کوائف حکومت کے پاس موجود نہیں ہیں۔
حکومت پاکستان نے اندراج شدہ افغان پناہ گزینوں کو وطن واپسی کے لیے اس سال کے اختتام تک کی مہلت دے رکھی ہے مگر اس کے بعد افغانوں کا مستقبل کیا ہو گا اس بارے میں سرکاری طور پر کسی حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستانی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں سے افغانوں کی میزبانی کر کے حکومت اور پاکستان کے عوام نے جو نیک نامی کمائی ہے اسے ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔
پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے سربراہ نیل رائٹس نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ ان کے ادارے کی طرف سے رضا کارانہ طور پر وطن واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کو دی جانے والی روز مرہ استعمال کی اشیاء میں حال ہی میں مزید اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد سے ان کی واپسی کے عمل میں تیزی آئی ہے۔
نیل رائٹس نے بتایا کہ وطن واپس جانے والے افغانوں نے اپنے ملک میں سلامتی کی صورت حال سے متعلق خدشات کا اظہار کیا ہے لیکن ان کے بقول یہ ضروری نہیں کہ افغانستان میں امن و امان کی صورتحال واپس جانے والے پناہ گزینوں کے لیے سب سے بڑا خدشہ ہو۔
’’افغان پناہ گزینوں کو ایک بڑا خدشہ یہ ہے کہ جب وہ اپنے وطن واپس جائیں گے تو کیا وہ اپنے خاندان کی ضروریات کو پورا کر سکیں گے یا نہیں اور رہنے کے لیے کیا انھیں گھر دستیاب ہو سکے گا یا نہیں۔‘‘
تقریب سے خطاب میں وفاقی وزیر برائے سرحدی امور شوکت اللہ نے کہا کہ حکومت افغانوں کی رضا کارانہ واپسی چاہتی ہے اور ان کے بقول رواں سال لگ بھگ 72 ہزار افغان پناہ گزین اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔
’’ہم چاہتے ہیں کہ افغان پناہ گزین اپنے وطن جا کر افغانستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔‘‘
پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اندارج شدہ افغان پناہ گزینوں کی تعداد لگ بھگ 17 لاکھ ہے اور وفاقی وزیر شوکت اللہ کے مطابق ملک میں مقیم 10 لاکھ سے زائد افغانوں کے کوائف حکومت کے پاس موجود نہیں ہیں۔
حکومت پاکستان نے اندراج شدہ افغان پناہ گزینوں کو وطن واپسی کے لیے اس سال کے اختتام تک کی مہلت دے رکھی ہے مگر اس کے بعد افغانوں کا مستقبل کیا ہو گا اس بارے میں سرکاری طور پر کسی حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستانی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں سے افغانوں کی میزبانی کر کے حکومت اور پاکستان کے عوام نے جو نیک نامی کمائی ہے اسے ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔