افغان جنگ کے نتیجے میں اپنے علاقوں میں نامساعد حالات کے پیش نظر لاکھوں افغان شہریوں نے پاکستان کا رُخ کیا۔ لاکھوں کی تعداد میں آنے والے یہ مہاجرین پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے علاوہ لاہور، کراچی اور اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں بھی آباد ہوئے۔
اس نقل مکانی کو 40 برس گزر جانے کے بعد آج تاریخ دان اور سالہا سال ان مہاجرین کے مسائل کو رپورٹ کرنے والے صحافی سمجھتے ہیں کہ اس ہجرت نے پاکستان اور مہاجرین دونوں پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔
بعض ناقدین کا یہ خیال ہے کہ بڑے پیمانے پر افغان مہاجرین کی موجودگی سے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ بعض تجزیہ کاروں کے بقول اس سے پاکستان میں پشتو زبان کی ترویج کے علاوہ ایک نئی ثقافت اور معاشرت کو فروغ ملا ہے۔
افغان مہاجرین کی پاکستان میں تعداد اور ملکی شناخت
اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق 70 اور 80 کی دہائی میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ 2001 تک ان کی تعداد 40 لاکھ کے لگ بھگ ہو چکی تھی۔ لیکن 2017 میں یہ تعداد کم ہو کر 14 لاکھ رہ چکی ہے۔
زیادہ تر افغان مہاجرین اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ چکے ہیں جنہیں 2017 تک یو این ایچ سی آر کی جانب سے خصوصی قانونی حیثیت حاصل تھی لیکن بات اعداد و شمار سے کہیں آگے کی ہے۔
تاریخ دان اور لکھاری ڈاکٹر طاہر کامران کا کہنا ہے کہ اس ہجرت کے نتیجے میں پاکستان کو ایک بہت بڑی آبادی کا بوجھ برداشت کرنا پڑا جب کہ پاکستانی معیشت اس کی متحمل نہیں تھی۔ اس سے مہاجرین کے مسائل بڑھے بلکہ وسائل بھی کم ہوئے۔
نیا قومی تشخص؟
چار دہائیوں سے افغان مہاجرین کے مسئلے کو رپورٹ کرنے والے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کہتے ہیں کہ انہوں نے افغان پناہ گزینوں کو پاکستان آتے اور بستے دیکھا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے علاقوں میں جہاں ان مہاجرین کی ابتدائی طور پر زیادہ تعداد موجود تھی، ثقافتی ہم آہنگی کوئی مسئلہ نہیں تھی۔ شمیم شاہد کے بقول "پشاور اور اس کے آس پاس کے علاقوں کی ثقافت جلال آباد اور کنڑ کے علاقوں کے بہت قریب تھی۔"
لیکن ڈاکٹر طاہر کامران اسے دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ثقافت کو صرف رہن سہن تک محدود کرنا مناسب نہیں۔ ان کے بقول مہاجرین کی آمد نے پاکستان میں قومی تشخص کی بجائے مسلم اُمہ کے تشخص کو اُجاگر کیا۔ اور یہی عرصہ دراز تک ریاستی بیانیہ بھی رہا۔
طاہر کامران کا کہنا تھا کہ معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی کے نظریات اسی مسئلے سے جڑے ہوئے ہیں۔
شمیم شاہد اسی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سویت، افغان جنگ کے بعد مہاجرین کی پاکستان آمد سے ریاستی بیانیہ تبدیل ہوا۔ اُن کے بقول دیکھتے ہی دیکھتے خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں مدارس کی تعداد اچانک بڑھنے لگی جس نے آگے چل کر طالبان کے پر تشدد نظریات کو جنم دیا۔
پشتو زبان کی ترویج
شمیم شاہد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بہت سے علاقے ایسے تھے جہاں افغان پناہ گزینوں کی آمد سے پہلے پشتون زبان کا استعمال کم ہونے لگا تھا۔ اس دوران پشتو بولنے والوں کی اچانک آمد نے پشتو زبان کے استعمال کو ایک بار پھر سے پاکستانی معاشرت کا اہم حصہ بنا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ رپورٹنگ کے دوران یہ دیکھ رہے تھے کہ افغان سویت جنگ پر بے پناہ کتابیں لکھی جانے لگیں۔ جن میں سے بہت سی پشتو زبان میں تھیں۔ اُن کے بقول اس سے لوگوں میں پشتو زبان میں کتب خریدنے کا رُجحان بڑا، پشتو اور دری اخبارات، ریڈیو اور بعدازاں ٹی وی نشریات شروع ہوئیں۔
وسائل کی کمی اور منشیات
تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ بڑے پیمانے پر افغان مہاجرین کی آمد سے پاکستانی معاشرے پر منفی اثرات بھی مرتب ہوئے۔
شمیم شاہد کے بقول افغانستان میں پوست کی کاشت، ہیروئن جیسے نشے اور غیر قانونی اسلحے کی اسمگلنگ بھی افغانستان میں جاری شورش کا ہی نتیجہ تھی۔
ڈاکٹر طاہر کامران کہتے ہیں کہ یہاں ریاستِ پاکستان سے غلطی ہوئی۔ اُن کے بقول افغان جنگ میں پاکستان کے اہم کردار اور اس کے بعد پناہ گزینوں کی میزبانی کے معاملے میں انتظامی غلطیاں ہوئیں۔ پاکستان اس قابل نہیں تھا کہ ان مہاجرین کی صورت میں افرادی قوت سے صحیح طریقے سے استفادہ کرتا۔ لہذٰا پاکستان میں منشیات، کلاشنکوف کلچر اور انتہا پسندی میں اضافہ ہوا۔
اُن کے بقول منشیات اور اسلحے کے کاروبار سے منسلک افراد نے بھاری سرمایہ کمایا لیکن پاکستانی معاشرے کو اس کا نقصان ہوا۔
'افغان ثقافت سے ہم واقف ہی نہیں'
افغان پناہ گزین خواتین کی بہبود کے لیے سرگرم ڈیزائنر ہما عدنان کہتی ہیں کہ افغان جنگ کے حوالے سے بہت سی کتب لکھی گئیں۔ لیکن پاکستان میں افغان روایات اور ثقافت کو سمجھا ہی نہیں گیا۔
اُن کے بقول افغان خواتین سے جب رابطہ ہوا تو اندازہ ہوا کہ اُن کے ملبوسات اور ڈیزائن نہایت خوبصورت اور منفرد ہیں۔ اُن کے کھانے میں بھی ورائٹی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں صرف کابلی پلاؤ ہی متعارف ہوا، حالانکہ اس کے علاوہ بھی بہت سے افغانی کھانے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی بھی معاشرتی گروہ کو سمجھا نہ جائے تو اس میں تنہائی اور محرومی کا احساس بڑھنے لگتا ہے جو خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
شمیم شاہد کہتے ہیں کہ پاکستان پر جو اثرات مرتب ہوئے وہ اپنی جگہ لیکن واپس افغانستان لوٹنے والے مہاجرین کچھ نئی اقدار بھی ہمراہ لے گئے۔ اُن کے بقول جن لوگوں نے پاکستان میں ہجرت کی وہ زیادہ تر دیہاتی تھے۔ لیکن پاکستان کے مختلف شہروں میں رہنے کے بعد جب وہ افغانستان گئے تو شہری تمدن بھی ساتھ لے گئے۔
شمیم شاہد کے بقول کابل کی آبادی 80 لاکھ کے قریب ہے جب کہ شہر کو بسانے والوں میں پاکستان سے جانے والوں کی تعداد کا بڑا عمل دخل ہے۔
چالیس سال پر پھیلے افغان اور پاکستان کے ایک دوسرے پر معاشرتی اثرات پر بات کرتے ہوئے تجزیہ کار یہی کہتے ہیں کہ مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو رکھنا اتنا آسان نہیں تھا۔