پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ نہیں چاہیں گے کہ پاکستان پیسے کے عوض کسی دوسرے ملک کی جنگ لڑے۔
عمران خان نے یہ بات امریکہ کے مؤقر اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کے ساتھ ایک انٹریو میں پاک امریکہ تعلقات سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہی ہے۔
جمعرات کو شائع ہونے والے انٹرویو میں عمران خان نے کہا ہے کہ وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان کے کسی دوسرے ملک کے ساتھ ایسے تعلقات ہوں جہاں پاکستان کو "کرائے کا قاتل" سمجھتے ہوئے یہ توقع کی جائے کہ وہ پیسے کے عوض کسی دوسرے ملک کی جنگ لڑے گا۔
ان کا کہنا تھا، "ہمیں کبھی بھی اپنے آپ کو دوبارہ ایسے حالات کے سپرد نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف ہمیں جانی نقصان اٹھانا پڑا بلکہ ہمارے قبائلی علاقوں میں تباہی ہوئی اور ہمارے وقار کو بھی دھچکا لگا۔ ہم امریکہ کے ساتھ حقیقی تعلقات چاہتے ہیں۔"
جب ان سے اس بات کی وضاحت کرنے کو کہا گیا تو عمران خان نے کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے ایسے تعلقات چاہتے ہیں جیسا کہ چین کے ساتھ ہیں۔ ان کے بقول چین کے ساتھ پاکستان کا تعلق یک طرفہ نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ نوعیت کے تجارتی تعلقات قائم ہیں۔
انٹرویو لینے والی 'واشنگٹن پوسٹ' کی سینئر صحافی للی وے ماؤتھ کے اس سوال پر کہ کیا امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے چاہئیں؟ عمران خان نے استفہامیہ انداز میں کہا کہ "سپر پاور سے تعلقات کون نہیں رکھنا چاہتا؟"
جب عمران خان سے پاکستان میں طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی سے متعلق امریکی الزامات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسی کوئی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ حکومت میں آئے تھے تو سکیورٹی فورسز نے انہیں اس بارے میں مکمل بریفنگ دی تھی۔
عمران خان کے بقول، "انہوں نے مجھے بتایا کہ امریکیوں کو بار بار یہ کہا گیا ہے کہ آپ ہمیں بتائیں کہ محفوظ پناہ گاہیں کہاں ہیں؟ ہم ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔"
وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ "یہ لوگ کہاں ہیں؟ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہماری سرحد کی مؤثر نگرانی کی جاتی ہے۔ امریکہ کے پاس سیٹلائیٹس اور ڈرون موجود ہیں۔ اگر یہ لوگ سرحد پار کرتے ہیں تو ان کو دیکھا جا سکتا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ اول تو ایسی کوئی پناہ گاہیں نہیں ہیں۔ اگر چند سو یا دو، تین ہزار طالبان پاکستان آئے بھی ہیں تو وہ آسانی سے ان افغان مہاجر کیمپوں میں جا سکتے ہیں جو پاکستان میں قائم ہیں۔ انہوں نے باور کرایا کہ پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔
وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان کا امن پاکستان کے مفاد میں ہے اور اس کے لیے ہم ہر ممکن کوشش کریں گے۔
جب ان سے یہ سوال ہوا کہ کیا وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے ان پر دباؤ ڈالیں گے، تو انہوں نے کہا، "جہاں تک طالبان پر دباؤ ڈالنے کی بات ہے، یہ کہنا آسان ہے لیکن کرنا مشکل ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرنی ہو گی کہ افغانستان کا 40 فی صد علاقہ حکومت کی عمل داری سے باہر ہے۔"
جب ان سے پوچھا گیا کہ اب امریکہ بات چیت کے ذریعے سے افغان مسئلے کا حل چاہتا ہے تاکہ امریکی فورسز واپس جا سکیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ امریکی فوج چلی جائے؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ وہ کئی برسوں سے یہ کہتے آ رہے ہیں کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے جس پر انہیں طالبان خان تک کہا گیا۔
"مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اب ہر کسی کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا صرف سیاسی حل ہے۔ پاکستان کے نقطۂ نظر سے ہم نہیں چاہتے کہ امریکہ جلدی میں افغانستا ن سے چلا جائے جیسا کہ اس نے 1989ء میں کیا تھا۔"
انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں افراتفری نہیں چاہتے اور اس بار اس مسئلے کا ایک مستقل حل ہونا چاہیے کیونکہ 1989ء کی افراتفری کے بعد طالبان سامنے آئے تھے۔
پاک بھارت تعلقات سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیرِ اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ بھارت میں انتخابات ہونے والے ہیں اور چوں کہ حکمران جماعت ان کے بقول پاکستان اور مسلمان مخالف ہے اس وجہ سے اس نے تعلقات کو بہتر کرنے کی پیش کش مسترد کر دی ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ بھارت میں انتخابات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت شروع ہوسکتی ہے۔
ممبئی حملوں سے متعلق عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں کچھ کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے اپنی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان حملوں سے متعلق پاکستان میں درج مقدمے کی صورتِ حال معلوم کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو حل کرنا خود پاکستان کے مفاد میں ہے کیوں کہ یہ ایک دہشت گرد حملہ تھا۔