"میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں کبھی کابل سے دُور جا سکوں گی۔ تاہم طالبان کے آنے سے حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ ہم پہلے اپنے ہی ملک میں در بدر ہو گئے اور بعد میں جان بچانے کی غرض سے پاکستان کا رُخ کیا۔"
یہ کہنا ہے مہریا برکی کا جو افغانستان کے حالات سے تنگ آ کر تین ماہ قبل اپنے دو بچوں اور خاوند کے ساتھ براستہ طورخم بارڈر پاکستان آ گئیں۔
اس وقت مہریا برکی اُن سینکڑوں افغان باشندوں میں شامل ہیں جو مناسب سہولیات کی فراہمی اور تحفظ کے لیے اسلام آباد میں سراپا احتجاج ہیں۔
افغانستان چھوڑنے کے فیصلے کے حوالے سے انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان کے برسراقتدار آنے سے قبل وہ سرکاری ٹیلی ویژن 'ملی ٹی وی' سے وابستہ تھیں جہاں وہ پروڈیوسر، رپورٹر اور بطور میک اپ آرٹسٹ کام کیا کرتی تھیں۔
مہریا برکی کے مطابق ٹی وی شوز کے دوران وہ مردوں اور عورتوں دونوں کے میک اپ کیا کرتی تھیں اور یہ بات طالبان بخوبی جانتے ہیں۔
ان کے مطابق طالبان ملی ٹی وی کا انتظام اپنے کنٹرول میں لے چکے ہیں۔ انہوں نے گھر پر پانچ ماہ تک اس امید کے ساتھ انتظار کیا کہ کوئی وسیلہ بن جائے لیکن تاحال وہاں خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لہذٰا انہوں نے مجبوراً اپنا ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
لیکن پاکستان میں بھی ناکافی سہولیات کے پیشِ نظر مہریا برکی جیسے سینکڑوں افغان مہاجرین سراپا احتجاج ہیں جن میں ازبک، تاجک اور ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے مہاجرین بھی شامل ہیں۔ ان افراد نے تین ہفتوں سے اسلام آباد پریس کلب کے باہر ڈیرے ڈال رہے ہیں۔ تاہم ان کا شکوہ ہے کہ نہ تو حکومتِ پاکستان اور نہ ہی عالمی برادری کی جانب سے اُن کی مدد کی جا رہی ہے۔
کیمپ کی ترجمان زہرہ اختری کا کہنا ہے کہ ان پناہ گزینوں میں 10 دن کے شیر خوار بچوں سے لے کر70 برس کے معمر افراد تک موجود ہیں تاہم پاکستانی سرکاری اسپتال ان افراد کا علاج نہیں کرتے جس کے بعد وہ پرائیویٹ کلینک کا رُخ کرتے ہیں جو کہ بہت مہنگے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے زہرہ اختری کا کہنا ہے کہ بیشتر افغان باشندوں کے ویزے ختم ہو رہے ہیں جس کے بعد انہیں آن لائن رقوم کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
اُن کے بقول یہ افغان مہاجرین کھلے آسمان تلے بے سروسامانی کی حالت میں موجود ہیں اور انہیں صاف پانی، شیلٹر اور حتیٰ کے ٹوائلٹس کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
زہرہ اختری کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنا احتجاج عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کو بھی ریکارڈ کرا چکے ہیں جن کے کچھ اہلکار یہاں آئے بھی تھے۔ تاہم اس کےبعد کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
پاکستان میں اسی کی دہائی میں افغانستان میں روس کے خلاف جنگ کے دوران لاکھوں افغان مہاجرین پناہ کے لیے پاکستان آ گئے تھے جن کی مجموعی تعداد لگ بھگ 30 لاکھ بتائی جاتی ہے۔
حکومتِ پاکستان نے گزشتہ برس افغانستان میں جاری جنگ اور طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل یہ اعلان کیا تھا کہ اس مرتبہ پاکستان افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو گا۔ تاہم اس کے باوجود ہزاروں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رُخ کیا۔
یو این ایچ سی آر پاکستان کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جنوری 2022 سے اب تک ایک لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین افغانستان سے پاکستان آئے ہیں۔ فی الحال حکومت پاکستان نے نئے آنے والے افغان مہاجرین کو نہ اپنانے کی پالیسی اپنائی ہے تاہم ان کا ادارہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے تاکہ نئے آنے والے افغان باشندوں کے لیے بھی کوئی راہ نکالی جائے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین، یو این ایچ سی آر کے مطابق اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 14 لاکھ ہے۔ جب کہ افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والوں کی تعداد تقریبا نو لاکھ جب کہ تقریباً آٹھ لاکھ کے قریب ایسے افغان باشندے بھی موجود ہیں جو بغیر دستاویزات کے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے ملک میں عام معافی کا اعلان کر دیا تھا لیکن زیادہ تر افغان شہری طالبان کے وعدوں پر شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایسے افراد جان بچانے اور بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
پچپن سالا نجیبہ انوری کا تعلق کابل سے ہے۔ وہ تاجک برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ 1996 سے 2001 تک طالبان کے پہلے دورِ اقتدار کے حالات بھی قریب سے دیکھ چکی ہیں۔
اُن کے بقول وہ دور خواتین کے حقوق کے لحاظ سے مشکل ترین دور تھا اور اس دوران اُنہوں نے ایران میں پناہ لی تھی ۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں مکمل طور پر افراتفری پھیل گئی۔ کیونکہ یہ سب کچھ پلک جھپکتے ہی ہو گیا۔
نجیبہ کے بقول ان کے پاس پاکستانی ویزہ نہیں تھا اسی لیے انہوں نے ایسے افراد سے رابطہ کیا جو بارڈر پار کرانے کے حوالے سے سہولت فراہم کراتے تھے۔ان کے بقول انہیں چمن کے راستے بارڈر 700 امریکی ڈالر کے عوض پار کرایا گیا۔
یاد رہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کے حوالے سے متعدد حکم نامے جاری کیے گیے ہیں جس میں مخلوط تعلیم کا خاتمہ، ستر کلومیٹر سے زائد سفر کے لیے محرم کی موجودگی اور برقعہ پہننے کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
سمیرا حسینی کا تعلق افغان صوبے پروان سے ہے۔ ان کے مطابق آٹھ ماہ قبل جب انہوں نے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو انہیں ان تمام باتوں کا احساس تھا کہ آنے والے دنوں میں وہاں خواتین کے حوالے سے کس قسم کی پالیسیاں مرتب کی جائیں گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سمیرا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں وہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتی ہیں۔ یہاں ان کا کوئی رشتہ دار نہیں ہیں۔ وہ اپنے تین بچوں کی کفالت کے لیے قریبی گھروں میں صفائی کا کام کرتی ہیں۔
ماضی کے حالات کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں وہ ہاؤس وائف تھیں۔ ان کا خاوند کمانے والا تھا جن کا تعلق پولس کے محکمے سے تھا تاہم گزشتہ ایک برس سے وہ طالبان کی قید میں ہیں۔
سمیرا حسینی کے مطابق افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندی ہے۔ اور وہ نہیں سمجھتیں کہ حالات میں بہتری آ جائے گی۔ اس لیے وہ چاہیں گی کہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے وہ پاکستان میں ہی رہنے کو ترجیح دیں گی جہاں کم از کم انہیں زندگی کے تحفظ اور روزگار کے مواقع ملنے کا تو امکان ہے۔