پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزین کے بچوں کے لیے تعلیمی اداروں میں اردو اور انگریزی میں پاکستانی نصاب پڑھنے کا فیصلہ ہوا تھا تاہم افغان پناہ گزین اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر افغان باشندوں کے تقریبا ایک لاکھ بچے 155 تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے زیر انتظام 105 تعلیمی اداروں میں نرسری سے چھٹی جماعت تک تقریبا 50 ہزار بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جب کہ مڈل سے 12ویں جماعت تک 50 تعلیمی اداروں میں 45 ہزار سے زیادہ طلبا زیر تعلیم ہیں۔
رواں برس تعلیمی سال 2019 کا باقاعدہ افتتاح پشاور میں تعینات افغانستان کے کونسل جنرل محمد ہاشم خان نیازی نے ایک نجی اسکول میں منعقدہ تقریب میں مہمان خصوصی کے حیثیت سے کیا۔
افغانستان میں جدید نصاب کی تیاری جاری
پشاور میں افغانستان کے قونصلیٹ میں شعبہ تعلیم کے آتاشی یلدہ بازوان نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ افغانستان میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ معیاری نصاب کی تیاری پر کام آخری مراحل میں ہے۔ اُمید ہے کہ رواں سال ہی درسی کتب کی چھپائی شروع ہو جائے گی۔
نئے تعلیمی سال کے آغاز کی تقریب میں موجود یلدہ بازوان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے درسی کتب کی پاکستان درآمد پر پابندی عائد ہے۔ نئی درسی کتب کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے حکومتِ پاکستان سے بات چیت جاری ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد جب افغانستان میں صدر حامد کرزئی کے سربراہی میں حکومت قائم ہوئی تو ان کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد درسی کتب کی چھپائی پاکستان میں ہی کی تھی۔
پاکستان کی حکومت نے 12-2011 میں افغانستان سے درسی کتابوں کی درآمد پر پابندی لگائی تھی۔
پاکستانی ویزے میں توسیع ایک مشکل اور پیچیدہ عمل
نئے تعلیمی سال سے متعلق تقریب میں موجود بعض طلبا نے پاکستان کے ویزوں میں توسیع کے پیچیدہ عمل پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔
طلبا کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو کابل اور جلال آباد میں پاکستان کے سفارت خانوں سے ویزا کا حصول مشکل ترین اور پیچیدہ عمل ہے۔ دوسری طرف ہر دو یا تین ماہ بعد ویزا میں توسیع کے لیے آنے جانے سے تعلیم متاثر ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں طالب علم محمد زیب جوہر نے کہا کہ پناہ گزین ہونے کی حیثیت میں تعلیم کی سہولت باعث اطمینان ہے لیکن ماضی کے مقابلے میں افغان پناہ گزینوں کے لیے تعلیم کے حصول میں مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
'فوٹو اسٹیٹ کرکے تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں'
پشاور میں قائم نجی افغان تعلیمی ادارے میں گیارہویں جماعت کے طالب علم حمید سیرت کا کہنا ہے کہ پچھلے کئی سال سے اُن جیسے سینکڑوں طلبا پرانی کتابوں سے فوٹو اسٹیٹ کرکے تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حمید سیرت کو رواں برس بھی درسی کتب ملنے کی اُمید نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ درسی کتب دستیاب نہیں ہیں جب کہ فوٹو کاپی پڑھنے کے قابل نہیں ہوتی لیکن مجبوری ہے کہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔
بعض طلبا کا کہنا تھا کہ مڈل پاس کرنے کے بعد سرکاری یا رجسٹرڈ تعلیمی اداروں میں افغان طلبا کے داخلے پر پابندی عائد ہے اسی لیے زیادہ تر طلبا مڈل کے بعد مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ نوجوان تعلیم ادھوری چھوڑ کر یا تو محنت مزدوری کرتے ہیں یا پھر واپس افغانستان چلے جاتے ہیں۔
'مشکل حالات میں پناہ گزین بچوں کو تعلیم دی جا رہی ہے'
خیبر پختونخوا میں قائم افغان تعلیمی اداروں کی تنظیم کے صدر امان اللہ نصرت نے بتایا کہ انتہائی مشکل حالات میں مہاجر بچوں کو تعلیم دی جا رہی ہے کیونکہ لوگوں کے اقتصادی مسائل بڑھ چکے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ افغان حکومت اور عالمی امدادی اداروں کے طرف سے معاونت کی کافی توقع تھی لیکن بدقسمتی سے اس معاملے میں کچھ نہیں کیا گیا۔
ویزوں میں توسیع کے معاملے پر یلدہ بازوان نے کہا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے سفارتی سطح پر کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ویزے کا مسئلہ صرف طلبا کو نہیں درپیش بلکہ پناہ گزین کارڈ رکھنے والے بعض شہریوں کو بھی مشکل پیش آ رہی ہے جس کے حل کے لیے پاکستانی حکام سے بات چیت جاری ہے۔
'درسی کتب پاکستان لانے کے لیے اجازت لینا ضروری ہے'
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے تعلیم ضیاء اللہ بنگش نے بتایا کہ افغان پناہ گزینوں کے تعلیمی اداروں میں افغانستان کا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ اُن کی درسی کتب پاکستان لانے کے لیے باقاعدہ اجازت لینا ضروری ہے۔
ویزا مسائل کے بارے میں مشیر تعلیم نے کہا کہ یہ مسئلہ سفارتی یا وزارت خارجہ کی سطح پر اُٹھانا چاہیے۔
ضیاء اللی بنگش کا کہنا تھا کہ پاکستان میں افغانستان کے 3000 سے زائد طلبا کو وظائف دیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر کی جامعات اور پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں میں ہزاروں افغان نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے بچوں کے لیے اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر کے زیر اہتمام چلنے والے تعلیمی اداروں میں گزشتہ برس پاکستانی نصاب پڑھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا یہ نصاب اُردو اور انگریزی زبان میں ہے جس پر افغان پناہ گزین تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
پشاور میں 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے کے بعد پاک افغان تعلقات کشیدہ ہوئے تھے۔ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد ان کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں پناہ گزین واپس افغانستان چلے گئے ہیں۔