پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے ’ریفیوجی ورکنگ گروپ‘ کی دوسری ملاقات اسلام آباد میں ہوئی، جس میں افغانستان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی وطن واپسی کی ڈیڈلائن آئندہ سال جون تک بڑھا دی گئی ہے، جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ طے شدہ ٹائم لائن کے مطابق افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے طریقہٴ کار پر بات چیت کی گئی ہے۔
افغانستان سے آنے والے پانچ رکنی ’افغان پاکستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سولیڈیریٹی‘ وفد کی ملاقات اسلام آباد میں ہوئی جس میں افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔
ان ملاقاتوں میں افغان وفد کی قیادت افغانستان کے وزیر برائے مہاجرین واپسی اسلام الدین کر رہے ہیں، جبکہ پاکستانی وفد کی قیادت سیکرٹری سیفران محمد اسلم نے کی۔
وائس آف امریکہ کے ’ڈیوا ریڈیو‘ سے بات کرتے ہوئے افغانستان کی وزارت برائے مہاجرین کی واپسی، اسلام الدین جرات نے کہا کہ پاک افغان حکام نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے دسمبر 2018 کی دی گئی ڈیڈ لائن کو جون 2019 تک بڑھانے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس کے مقابلے میں پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جو بیان جاری کیا گیا ہے اس میں پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اجلاس کے دوران افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے طے شدہ ٹائم لائن اور طریقہ کار پر بات چیت کی گئی جس میں مختلف کیٹگریز کے افغان شہریوں کی وطن واپسی کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔
اس سے قبل اس گروپ کا اجلاس 22 جولائی کو کابل میں ہوا تھا جس میں سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے بھی شرکت کی تھی۔
پاکستان میں اس وقت بھی 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین موجود ہیں اور پاکستان حالیہ سالوں میں ان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے زور دیتا رہا ہے۔ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ پاکستان کی طرف سے افغان مہاجرین کو ملک چھوڑنے کے لیے مختلف تاریخیں دی گئیں۔ لیکن، بعد ازاں اس معیاد میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کئی کارروائیوں میں افغان مہاجر کیمپس اور قانونی و غیرقانونی طور پر رہنے والے افغان باشندے ملوث رہے ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر حکومت پاکستان نے افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کو نیشنل ایکشن پلان میں بھی شامل کیا۔
لیکن، پاکستان میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں موجود افغان مہاجرین کی دوسری اور تیسری نسل رہ رہی ہے جو افغانستان واپس نہیں جانا چاہتی۔ لیکن، پاکستان ان مہاجرین کو وطن واپس بھجوانے کی سنجیدگی سے کوشش کر رہا ہے اور اس ’ریفیوجی ورکنگ گروپ‘ کا قیام اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔