رسائی کے لنکس

افغانستان میں طالبان عسکریت پسند نئے کردار میں نظر آنے لگے


ہرات میں ایک طالبان عسکریت پسند رات کو مارکیٹ میں گشت کر رہا ہے۔ 29 نومبر 2021
ہرات میں ایک طالبان عسکریت پسند رات کو مارکیٹ میں گشت کر رہا ہے۔ 29 نومبر 2021

افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی افواج کے اچانک انخلا کے بعد تقریباً ساڑھے تین مہینے قبل ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان جنگجوؤں نے پہاڑوں اور میدانوں میں برس ہا برس تک لڑنے کا اپنا کردار تبدیل کر لیا ہے اور اب وہ شہریوں کے تحفظ اور امن و امان قائم رکھنے کے لیے شہروں اور قصبوں میں محافظوں کے فرائض ادا کر رہے ہیں۔

اب بہت سے طالبان عسکریت پسند ملک کے مختلف حصوں میں سڑکوں پر قائم چوکیوں میں ڈیوٹی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ شہروں اور قصبوں میں مسلح گشت کرتے بھی نظر آتے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے ہرات میں رات کے وقت مختلف مقامات پر ڈیوٹی کرنے والے طالبان عسکریت پسندوں کو فوٹو اتروانے کے لیے کہا تو انہوں نے بڑی خوشی سے نہ صرف اپنی تصویریں بنانے کی اجازت دی بلکہ اس کے لیے پوز بھی بنائے۔

ان طالبان میں 21 سالہ احمد ولی بھی شامل ہیں جنہیں ہرات کے شمالی قصبے قمر کالاغ میں گشت کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ وہ ایک اسلامی مدرسے میں پڑھتے ہیں۔

ایک طالبان عسکریت پسند ہرات کے ایک علاقے میں ڈیوٹی ادا کر رہا ہے۔ 27 نومبر 2021
ایک طالبان عسکریت پسند ہرات کے ایک علاقے میں ڈیوٹی ادا کر رہا ہے۔ 27 نومبر 2021

انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان کا قرآن پر ایمان ہے اور وہ اپنے ملک میں امریکہ کی موجودگی اور سابق افغان حکومت کے خلاف ہیں، جن کی کرپشن اور بدعنوانی کی کہانیاں عام ہیں اور ان پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جاتی تھی۔

ولی نے بتایا کہ اب وہ اپنی نئی ذمہ داریوں میں بہت مصروف رہتے ہیں اور جس علاقے میں اس کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے، وہ وہاں فرائض انجام دے رہے ہیں۔

انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ ان کا اور ان کے ملک کا مستقبل روشن ہے۔ احمد ولی کا کہنا تھا کہ انہیں 99 فی صد یقین ہے کہ تمام افغان شہریوں کے لیے بہتر دن آنے والے ہیں۔

ہرات کے ایک مضافاتی علاقے میں ایک طالبان عسکریت پسند رات کے وقت گشت کر رہا ہے۔ 29 نومبر 2021
ہرات کے ایک مضافاتی علاقے میں ایک طالبان عسکریت پسند رات کے وقت گشت کر رہا ہے۔ 29 نومبر 2021

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کی معیشت، جس کا انحصار پہلے ہی غیر ملکی امداد پر تھا، شدید نوعیت کے بحران میں ڈوب چکی ہے۔ بین الاقوامی برادری نے کروڑوں ڈالر کی مالی امداد روک دی ہے، جس پر اس ملک کےتین کروڑ 80 لاکھ آبادی کا انحصار تھا جب کہ بیرون ملک افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد ہو چکے ہیں۔

افغانستان کا بینکاری کا نظام زیادہ تر بیرونی دنیا سے منقطع ہو چکا ہے اور نئے طالبان حکمران عمومی طور پر ملازموں کو تنخواہیں ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں، جب کہ ملکی معیشت سے روزگار کے مواقع ختم ہو چکے ہیں۔

چند پیشوں کے سوا، خواتین کے لیے زیادہ تر ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں اور انہیں ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ جب کہ دوسری جانب ہزاروں افراد، جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند بھی شامل ہیں، یا تو ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں یا افغانستان چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے ملک سے ذہین اور مہارت رکھنے والے افراد کی شدید قلت کا خدشہ جنم لے رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG