افغانستان کی حکومت نے پاکستاں کے ساتھ اپنی مصروف ترین گزرگاہ طورخم کے راستے داخل ہونے والے تمام پاکستانیوں کے لیے ویزہ لازمی قرار دے دیا ہے۔
افغان حکومت کی اس پابندی کے نتیجے میں روزانہ کی بنیاد پر دونوں ممالک کے درمیان آنے جانے والے چھوٹے تاجر اور دکان دار پریشانی سے دوچار ہیں۔
تاہم افغان حکام کے مطابق سرحد کے اس پار رہائش پذیر شینواری قبائل اب بھی اس پابندی سے مشتثنیٰ ہوں گے۔
گزشتہ 15 سال سے آٹو پارٹس کی تجارت سے وابستہ پشاور سے تعلق رکھنے والے سید چراغ شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ویسے تو افغانستان میں داخلے کے لیے ویزے کی شرائط یکم جولائی سے لازمی قرار دی گئی تھی مگر اس پر عمل درآمد سات جولائی سے شروع ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سرحد کے اس پار پاکستانی حکام نے بھی نوٹس چسپاں کر کردیے ہیں جن میں چھوٹے دکان داروں اور تاجروں کو بغیر ویزہ لگوائے افغانستان میں داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے۔
پاکستانی حکام نے لگ بھگ دو سال قبل افغانستان کے ساتھ سرحد پر بارڈر منیجمنٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر باقاعدگی سے عمل درآمد تقریباً ایک سال قبل شروع ہوا تھا۔
اس منیجمنٹ کے تحت بغیر یا نامکمل دستاویزات کے ساتھ سرحد پار کرنے والوں کے لیے سختی کی گئی تھی۔
مگر بعد ازاں دو طرفہ تجارت سے منسلک چھوٹے دکان داروں اور تاجروں بالخصوص شینواری اور آفریدی قبائل کے لیے اس پابندی میں نرمی کردی گئی تھی۔
افغانستان سے متصل پاکستان کے سرحدی علاقے خیبر ایجنسی کی انتظامیہ نے تاحال افغان حکومت کی جانب سے عائد کی جانے والی اس نئی پابندی سے متعلق کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔
لیکن انتظامی اہلکاروں نے تصدیق کی ہے کہ خیبر ایجنسی کے شینواری قبائل کے علاوہ پشاور اور ملک کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے تاجروں اور دکان داروں کو بغیر ویزہ افغانستان میں داخل ہونے سے روکا جارہا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے تاجروں کی مشترکہ تنظیم کے نائب صدر ضیا الحق سرحدی نے بھی افغان حکومت کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندی کی تصدیق کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پابندی سے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت پر منفی اثرات پڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورتِ حال کے باعث دوطرفہ تجارت میں پہلے ہی کافی کمی ہوئی ہے اور اس طرح کے اقدامات رہی سہی تجارت کو بھی نقصان پہنچائیں گے۔
افغان حکومت نے تاحال اس فیصلے کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔