طالبان حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس زیرحراست افغان خاتون کو جلد ہی سزا سنائیں گے جس نےطالبان کے ایک سابق عہدیدار پر ان کےساتھ زبردستی شادی کرنے اور ریپ کرنے کے الزامات لگائے ہیں۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو کے مطابق خاتون نے اپنا نام الاہا بتایاہے۔انہوں نے روتے ہوئے طالبان کی وزارت داخلہ کے سابق ترجمان سعید خوستی پر الزام لگا یا تھا کہ خوستی نے انہیں مار ا پیٹا اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔
الاہا نے کہا کہ وہ دارلحکومت کابل کے ایک اپارٹمنٹ سے بات کر رہی ہیں جہاں طالبان نے انہیں ملک سے فرار ہونے کی کوشش کرنے کے بعد قید کر رکھا ہے۔ خاتون نے التجا کی ہے کہ اسے اس صورت حال سے بچایا جائے۔
ویڈیو میں خاتون نے کہا: "ہو سکتا ہے یہ میرے آخری الفاظ ہوں " وہ مجھے مار ڈالے گا، لیکن ہر بار مرنے سے بہتر ہے کہ ایک بار مر جاؤں۔"
الاہا کی جانب سے الزامات کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد عدالت کے حوالے سے ایک غیر یقینی صورت حال نے بھی جنم لیا ہے۔ا یک طرف تو ملک کی اعلی عدالت یعنی سپریم کورٹ کی کابل شاخ کے ٹوئٹر پیج میں بدھ کو کہا گیاتھا کہ خاتون کو چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی کے حکم پر ہتک عزت کے الزام میں باضابطہ طور پر گرفتار کر لیا گیا ہے اور جلد ہی اسے سزا سنائی جائے گی۔
لیکن سپریم کورٹ کے گزشتہ ماہ بننے والے ایک نئے ٹوئٹر پیج سے جمعرات کو ایک پوسٹ میں کہاگیا کہ گرفتاری کی بات کرنے والا پیچ جعلی تھا۔
اے پی کے مطابق تازہ ترین رپورٹ کے وقت عدالت کےپیج کے حوالے سے پیدا ہونے والا اختلاف فوری طور پر حل نہیں ہو سکا۔ سپریم کورٹ اور وزارت داخلہ کے حکام نے ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ آیا الاہا کو باضابطہ طور پر گرفتار کیا گیا تھا یا نہیں۔
طالبان نے ایک سال قبل افغانستان میں امریکہ کی حمایت یافتہ حکومت کو گرا کر دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور افغان خواتین کارکنوں نے کہاہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے ملک پر قبضے کے بعدسے افغان خواتین کے ساتھ جبری شادیوں میں اضافہ ہوا ہے - ایسے واقعات بھی رپورٹ کیے گئے ہیں جن میں طالبان حکام نے خواتین کو یا ان کے خاندانوں کو ڈرا دھمکا کر شادی کرنے پر مجبور کیا۔
ادھر سابق ترجمان خوستی نے ٹوئٹ کے ذریعے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے الٰاہا سے شادی کی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے اور کہا "میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا ہے۔"
اے پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ مہینوں میں خوستی کو ان کے ترجمان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ان کا نیا عہدہ کیا ہوگا۔
الاہا نے ویڈیو میں بتایا ہے کہ وہ کابل یونیورسٹی میں میڈیکل کی طالبہ اور سابق افغان حکومت کے دور میں انٹیلی جنس سروس کے ایک جنرل کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خوستی نے چھ ماہ قبل ان سے اس وقت زبردستی کی شادی کی تھی جب وہ ترجمان کے عہدے پر فائز تھا۔
خاتون بتاتی ہیں کہ خوستی نے ان کی بہن کی شادی بھی ایک اور طالبان اہلکار سے کرانے کی کوشش کی تھی لیکن الاہا کا خاندان اس صورت حال سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ اے پی کے مطابق الاہا کا کہنا ہے کہ سعید خوستی نے انہیں بہت مارا اورہر رات ان کے ساتھ زیادتی کی۔
ویڈیو میں الاہا کہتی ہیں کہ انہوں نے افغانستان سے پڑوسی ملک پاکستان فرار ہونے کی کوشش کی لیکن طالبان نے انہیں سرحدی گزر گاہ سے گرفتار کر لیا۔ اور کابل لا کر ایک اپارٹمنٹ میں قید کر دیا گیا ہے۔ الاہا کہتی ہیں کہ انہوں نے طالبان کے ایک رکن کو خوستی سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ وہ یعنی الاہا 20 سال تک سابق حکومت کے بندوبست میں رہی ہے لہذا اسے کافر کی حیثیت سے سنگسار کر دینا چاہیے۔
خوستی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے الاہا کو اس وقت طلاق دے دی تھی جب اسے معلوم ہوا کہ انہیں "اپنے عقیدے میں مسئلہ ہے" اور اس نے خاتون پر اسلام کی مقدس کتاب قرآن کی توہین کا الزام بھی لگایا۔
الاہا کی ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد اس کو فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ گروپس پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا۔ خواتین کارکنوں نے طالبان کی مذمت کی ہے۔
اقتدار پر قا بض ہونے کے بعد طالبان نے خواتین پر کئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ انہوں نے بہت سی خواتین کو کام کرنے سے روک دیا ہے، نوعمر لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا ہے اور خواتین سے کہا ہے کہ وہ عوام میں جاتے ہوئے خود کو مکمل طور پر ڈھانپ کر جائیں۔
عالمی برادری نے طالبان کی عبوری حکمرانی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق اور دوسرے گروہوں کا احترام کریں۔