صافی رؤف افغان امریکی ہیں، وہ نوعمری میں ہی افغان پناہ گرین کی حیثیت سے امریکہ آگئے تھے۔ گذشتہ سال کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد وں پر دی جانے والی امداد پہنچانے اور انخلا میں مدد دینے کے لئے افغانستان گئے تھے۔ جہاں انہیں طالبان نے قید کر لیا۔
"کابل پر طالبان کے کنٹرول کی خبر کے وقت میں واشنگٹن ڈی سی میں تھا، مجھے ہر شخص کی طرف سے اس بارے میں فون کالز آرہی تھیں۔ ایسے لوگوں کی طرف سے بھی جو کبھی افغانستان گئے ہی نہیں تھے، ہم نے ایک گروپ بنایا اور اس بارے میں بات کی کہ افغانستان کے لوگوں کے لئے کیا کیا جائے، وہاں سے لوگوں کو کیسے نکالا جائے، کابل ہوائی اڈے کو کیسے آپریشنل کیا جائے "۔
جس کے لئے صافی رؤوف اور ان کے گروپ نے وائٹ ہاؤس سے باہر ایک آپریشن سینٹر جیسا ہیڈ کوارٹر قائم کیا۔
صافی رؤف نے وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں کہا کہ "سمندروں کے اس پار سات ہزار میل دور بیٹھ کر میں وہ کام نہیں کر سکتا تھا جومیں چاہتا تھا، اس لیے امدادی کاموں میں مدد دینے کے لئے افغانستان چلا گیا، پہلی بار جب میں وہاں گیا تو سب ٹھیک تھا، دوسری بار جب میں افغانستان گیا تو دورے کے آخری دن افغانستان کے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس والے مجھے بغیر کسی وجہ کے پکڑ کر لے گئے، آخری دن تک انہوں نے نہیں بتایا کہ مجھے قید کیوں کیا "۔
ایک سو پانچ دن تک طالبان کی قید میں رہنے کے بعد صافی کو اس سال اپریل میں رہائی ملی۔
صافی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی وضاحت یہ تھی کہ یہ ایک غلط فہمی ہے، " 18 دسمبر سے یکم اپریل تک طالبان نے مجھے یرغمال بنائے رکھا، میری رہائی کے لئے یہاں امریکی انتظامیہ کام کرنے لگی۔ بائیڈن خود اس میں شریک تھے اور امریکی حکومت، محکمہ خارجہ، وائٹ ہاؤس اور نیشنل سیکیورٹی کونسل ان سب کی مشترکہ کوششوں سے مجھے رہائی ملی"۔
صافی کہتے ہیں کہ طالبان کے ایک سال کے اقتدار کی وضاحت کرنا بہت پیچیدہ ہے کیونکہ ’’طالبان یہ غلط بیانیہ پیش کر رہے ہیں کہ سب ٹھیک ہے اور حالات اتنے برے نہیں جتنے لوگ بیان کر رہے ہیں، لیکن یہ بیانیہ قطعاً درست نہیں ہے۔ طالبان منظم طریقے سے ان تمام لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو امریکہ کے اتحادی ہیں، جنہوں نے امریکہ کی اور امریکیوں کی مدد کی ہے"۔
وہ کہتے ہیں "ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو سابق سرکاری ملازمین ہیں، سابق فوجی اہلکار ہیں اور جو ترجمان رہے ہیں"۔
گزشتہ سال اگست میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے وہاں حالات اور واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو پوری دنیا کے لئے باعث تشویش ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں، افغانستان سے شہریوں کے انخلا اور امریکہ میں افغان پناہ گزینوں کی آباد کاری میں مدد فراہم کرنے والے کئی افغان امریکیوں اور دیگر ماہرین نے افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کا ایک سال مکمل ہونے پر وائس آف امریکہ سے اپنے تجربات شئیر کئے ہیں۔
ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی افغان امریکی فاطمہ جاغوری 1999 میں اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ منتقل ہوئی تھیں۔ امریکی فوج کا حصہ بننے کے بعد انہوں نے عراق میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔ ان کے شوہر افغانستان میں امریکی فوجی کی حیثیت سے ایک کارروائی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ فاطمہ گذشتہ سال ستمبر سے افغان خواتین کے لئے کام کر رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ اردو سے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ "1990 میں طالبان نے گھات لگا کر میرے والد کو مار ڈالا، اب بھی یہی ہو رہا ہے، وہ نہیں بدلے۔ خواتین کو اب بھی دبایا جارہا ہے، آپ کسی فن، موسیقی سے لگاو کا اظہار نہیں کر سکتے، آرٹ اور میوزک کے بغیر خوشی حاصل نہیں ہو سکتی، اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر وہ پابندی لگانے کی کوشش کر رہے ہیں، جب آپ ان دو چیزوں پر پابندی لگاتے ہیں تو اپنی ثقافت سے محروم ہو جاتے ہیں، آپ اپنی شناخت کھو دیتے ہیں، اور وہ اسی کی کوشش کر رہے ہیں"۔
جولائی میں، افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) نے "افغانستان میں انسانی حقوق" کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی۔ جس میں گذشتہ اگست کے بعد سے ملک میں جاری انسانی حقوق خاص طور پر خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ ماہ ایک ٹویٹ میں کہا کہ "افغانستان میں انسانی حقوق کے بارے میں ادارے کی رپورٹ درست نہیں ہے۔
نرگس کبیری 1986 میں پاکستان کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئیں۔ جس کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ آگئیں۔ یو ایس ملیٹری اکیڈیمی میں کام کے ساتھ ساتھ انہوں نے افغانستان سے لوگوں کے انخلا کی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
نرگس کبیری کہتی ہیں "میں اب بھی اس صدمے سے گزر رہی ہوں کہ یہ ایک حقیقت ہے۔ میں بار بار نیند سے اٹھ کر سوچتی ہوں کہ یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہمیں اس وقت جو اہم کام کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ طالبان پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ خواتین کے تعلیم، کام اور گھروں سے باہر نکلنے کے، بنیادی حقوق انہیں دیں"۔
افغان طالبان گزشتہ ایک برس کے دوران، عالمی برادری کو یقین دہانی کراتے آئے ہیں کہ وہ کسی دہشت گرد گروہ کو افغان سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ لیکن حال ہی میں، القاعدہ کے سرکردہ رہنما ایمن الظواہری کی کابل میں ہلاکت اس ایک سال کے اہم واقعات میں کیا معنی رکھتی ہے۔
پیٹ ٹل مین فاؤنڈیشن کے ساتھ وابستہ ٹموتھی ٹورس نے ایک انٹرویو میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ القائدہ رہنما کی ہلاکت صدر بائیڈن کے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ ہے۔
ٹموتھی مزید کہتے ہیں کہ "میرے خیال میں اسے اس حقیقت کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اگر طالبان کھل کر القاعدہ اور دیگر کچھ دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کر رہے ہیں، تو اس صورت میں غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں کے لیے افغانستان کے اندر کام کرنا اور انسانی ہمدردی پر مبنی امداد کی ترسیل مشکل ہوگی۔ لہذا کچھ رابطوں کی ضرورت ہے، اس لئے نہیں کہ طالبان کو تسلیم کیا جائے بلکہ ان چار کروڑ افغان شہریوں کی مدد کرنے کے لیے جن کو خوراک اور رسد کی ضرورت ہے"۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی حالیہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان میں پر تشدد کارروائیوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد عام شہریوں کی ہلاکتوں میں بھی کمی آئی ہے۔
صافی رؤف کہتے ہیں کہ طالبان کے اقتدار پر قبضےکے ایک سال کے دوران ہم نے یہ سبق سیکھا ہے کہ ہمیں مزید کچھ کرنا ہے۔
"ہم ابھی پرعزم نہیں ہیں، ہمیں اگر اس کو (افغان جنگ) کو کامیابی پر منتج کرنا ہے تو ے مزید کچھ کرنا ہو گا ۔ دوسری صورت میں جو تاریخ ایک بار پھر امریکی حکومت کی سب سے تباہ کن ناکامی کے طور پر خود کو دہرانے جا رہی ہے ، ہمیں اپنے افغان اتحادیوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں ان سب کو باہر نکالنے کی ضرورت ہے۔‘‘
صافی کہتے ہیں کہ یہاں جو دوسرا سب سے اہم سبق ہم نے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ طالبان پر کبھی بھروسہ نہ کریں۔