رسائی کے لنکس

2016ء افغان صحافیوں کے لیے اب تک کا مہلک ترین سال


گزشتہ ماہ ایک مقتول صحافی ذبیح اللہ تمنا کو سپرد خاک کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ ماہ ایک مقتول صحافی ذبیح اللہ تمنا کو سپرد خاک کیا جا رہا ہے۔

گوکہ رپورٹ میں گزشتہ 15 سالوں کی نسبت افغان ذرائع ابلاغ کے زیادہ آزاد ہونے کا تذکرہ تو کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں خواتین کارکنوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔

افغانستان میں 2016ء میں اب تک دس صحافیوں کو ان کے فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیا جا چکا ہے، اور یوں جنگ سے تباہ حال ملک کے صحافیوں کے لیے یہ سال سب سے زیادہ مہلک سال ثابت ہوا ہے۔

افغان صحافیوں کی سلامتی کی کمیٹی کی طرف سے سال کی پہلی ششماہی رپورٹ میں بتایا کہ رواں سال کے اوائل سے اب تک افغانستان میں صحافیوں پر 54 حملے کیے گئے جو کہ گزشتہ سال اسی عرصے میں پیش آنے والے واقعات سے 38 فیصد زیادہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق تشدد کے زیادہ واقعات مبینہ طور پر حکومت کی ایما پر کیے گئے، لیکن تنظیم نے اس میں ملوث افراد کے بارے میں تفیصل فراہم نہیں کی۔

مزید برآں طالبان سے وابستی افراد کی طرف صحافیوں پر تشدد کے واقعات میں بھی گزشتہ سال کی نسبت اضافہ ہوا۔

رپورٹ کے مطابق افغان حکومت 21 جب کہ طالبان 16 واقعات میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔

گوکہ رپورٹ میں گزشتہ 15 سالوں کی نسبت افغان ذرائع ابلاغ کے زیادہ آزاد ہونے کا تذکرہ تو کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں خواتین کارکنوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔

"فی الوقت ذرائع ابلاغ میں خواتین کی موجودگی بڑے شہروں تک ہی محدود ہے۔"

رپورٹ نے افغان وزارت اطلاعات سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حکومتی عہدیداروں اور صحافیوں کے درمیان تعاون کی فضا قائم کرے کیونکہ اس کے بقول معمولات کے تبادلے میں کمی "صحافیوں کو کام میں درپیش بڑی مشکلات میں سے ایک ہے۔"

XS
SM
MD
LG