امریکی قانون سازوں کے سامنے طالبان کو شامل کیے بغیر افغان معیشت کو سہارا دینے کےلیے امداد بھیجنے کے چند متبادل طریقے پیش کیے گئے ہیں ، جن میں تنخواہوں کی براہ راست ادائیگی کے لیے عالمی بینک کے تحت افغان تعمیر نو کا فنڈ جاری کرنا، نجی شعبے پر امریکی پابندیوں کے اطلاق کی وضاحت اور نجی اثاثوں سے پابندی ہٹانا شامل ہیں۔
گزشتہ 20 برسوں کے دوران افغانستان کی معیشت نصف سے زائد رسرمائے کےحصول کے لیےغیر ملکی امداد پر انحصار کرتی رہی ہے۔لیکن امریکی انخلا کے بعد طالبان کی جانب سے گزشتہ اگست میں ملک پر کنٹرول کے بعد افغانستان کے تقریباً 9 ارب ڈالر سے زیادہ کے فنڈز منجمد کردیے گئے تھے۔
ڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی نے گزشتہ دنوں کانگریس کی ایک سماعت میں کہا کہ " اس وقت افغانستان کے ہاتھوں میں اربوں ڈالر دے دینا اخلاقی اعتبار سے خطرے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امداد کا جزوی اثر بھی طالبان کو سہارا دینے کا سبب بن سکتا ہے۔ اور یہ نہایت غلط بات ہو گی''۔
اقوام متحدہ نے گزشتہ ماہ عالمی برادری سے اب تک کی سب سے بڑی امداد کی اپیل کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ انھیں افغانستان کو مکمل انسانی تباہی سے بچانے کےلیے 4 ارب 40 کروڑ ڈالر درکار ہیں ،ورلڈ فوڈ پروگرام کے اندازوں کے مطابق اس موسم سرما میں صرف 2 فیصد افغان باشندوں کے پاس کھانے کےلیے مناسب مقدار میں خوراک دستیاب ہوگی۔
بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی کے صدر اور سی ای او ڈیوڈ ملی بینڈ نے اس سماعت میں قانون سازوں کو بتایا کہ " چھ ماہ پہلے افغانستان ایک غریب ملک تھا، ایک بہت غریب ملک۔ آج افغانستان ایک فاقہ کش ملک ہے، صرف ایک غریب ملک نہیں۔ یہ بتاتے ہوئے مجھے افسوس ہوتا ہے۔ بھوک کے اس بحران کی وجہ بین الاقوامی معاشی پالیسی ہے جو اگست کے بعد سے اپنائی گئی ہے اورجس کے نتیجے میں افغانستان کے نہ صرف پبلک سیکٹر بلکہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی اقتصادی پیش رفت رک گئی ہے''۔
ملی بینڈ نےسماعت میں کہا کہ ان کا عملہ ان میڈیا رپورٹس کی تصدیق کرتا ہے کہ افغان کرنسی کی قدر میں کمی کے باعث کھانے پینے کی اشیا کے لیے لوگ اپنے اعضا تک فروخت کررہے ہیں۔
سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے اراکین تسلیم کرتے ہیں کہ طالبان کی جابرانہ پالیسیوں پر امریکی تشویش کی وجہ سے افغان عوام مشکلات کا شکار ہیں لیکن بہت سے لوگ امداد بھیجنے کے خطرات سے خبردار بھی کر رہے ہیں۔
ری پبلکن سینیٹر ٹوڈینگ نے کہا کہ یقیناً ہمیں طالبان کو کسی بھی نوعیت کے وسائل پر( مالی یا دوسرے)، جو کسی بھی طرح سے دہشت گردی کی مزید کارروائیوں کےلیے استعمال ہوسکتا ہو ، نگاہ رکھنی چاہئے۔ سب سے خراب صورت حال یہ ہو گی کہ انسانی امداد کا رخ اس کے جائز ضرورت مندوں کی بجائے طالبان اور ان کے ساتھی دہشست گردوں کی جانب مڑ جائے۔
غیر سرکاری تنظیموں کے سربراہان نے اعتراف کیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی بنیاد پر امریکی پابندیوں میں نرمی کرنے میں دشواریاں حائل ہیں۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے مشیر گریم اسمتھ نے کہا کہ امریکی محکمہ خزانہ ایسی فہرست جاری نہیں جاری کرسکتا جس میں افغانستان کےلیے اجازت درج ہو، اس کےلیے امریکی حکام فہرست بنائیں گے کہ کن چیز وں کی اجازت ہے۔
بقول ان کے، ''بدقسمتی سے ان میں سے بہت سے اقدامات کےسلسلے میں طالبان کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہو گی، اوریہ ایک مشکل اور ناخوشگوار معاملہ ہے۔ خصوصی طور پر اس صورت میں کہ طالبان مسلسل انسانی حقوق کے عالمی معیار کو پامال کر رہے ہیں۔مغربی ممالک کے حکام اور طالبان کے درمیان مذاکرات بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ان کے مطالبات مناسب تھے، جیسا کہ ہرعمر کی لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت دی جائے ، جب کہ امریکہ" ایک وسیع البنیاد حکومت" جیسے غیر حقیقی مطالبے کو بھی آگے بڑھا رہا ہے''۔
اسمتھ مل بینڈ نے قانون سازوں سےکہا کہ انسانی بحران کو کم کرنے کےلیے کئی اقدامات کیے جاسکتے ہیں جن میں افغان کارکنوں کی تنخواہوں کی براہ راست ادائیگی کےلیے عالمی بینک کے تحت افغان تعمیر نو کے فنڈ سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر جاری کرنا، افغانستان کے نجی شعبے پر امریکی پابندیوں کے اطلاق کی وضاحت ،معیشت اور افغان حکومت کے اثاثوں کو منجمد کرتے ہوئے نجی اثاثوں کو جاری کرنا شامل ہیں۔
ڈیموکریٹ سینیٹر جین شاہین نے بدھ کو کہا تھا کہ " ہمیں انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ افغانستان کے عوام اور افغانستان میں موجود خاندان بھو ک کے نتیجے میں ہلاک نہ ہوں۔
بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ ماہ بحران سے نمٹنے کےلیے مزید308 ملین ڈالر کی انسانی امداد دینے کا وعدہ کیا تھا۔