|
سال 2021 میں میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغانستان نے پیر کے روز پہلی بار، آب وہوا سے متعلق اقوام متحدہ کے مذاکرات میں ایک وفد بھیجا تاکہ گلوبل وارمنگ سے نمٹنے میں مدد حاصل کی جا سکے۔
ملک کے ماحولیاتی تحفظ سے متعلق ادارے کے سربراہ مطیع الحق خالص نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ افغانستان کو غیر متوقع بارشوں، طویل خشک سالی اور اچانک سیلابوں جیسے شدید موسمی واقعات سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی مدد کی ضرورت ہے۔
اس سال آذربائیجان کے دار الحکومت باکو میں ہونے والے مذاکرات میں ایک مترجم کے ذریعے بات کرتے ہوئےخالص نے کہا، "تمام ملکوں کو مل کر آب وہوا کی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنا چاہیے۔"
افغانستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سخت متاثر ہوا ہے، موسمیاتی ماہرین کے ایک حالیہ جائزے میں اسے دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آب و ہوا کی تبدیلی سے متاثر ملک قرار دیا گیا ہے۔
مارچ میں، شمالی افغانستان میں شدید بارشوں کے نتیجے میں اچانک سیلاب آئے، جن میں 300 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔ آب وہوا سے متعلق سائنس دانوں کے مطابق افغانستان میں گزشتہ 40 برسوں کے دوران شدید بارشوں میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
مطیع الحق خالص نے کہا کہ افغانستان نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے قومی ایکشن پلان تیار کر لیا ہے اور اگلے چند ماہ میں اپنے موسمیاتی اہداف کو اپ ڈیٹ کر دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ہوا اور شمسی توانائی کی بڑی صلاحیت موجود ہے لیکن اسے ترقی دینے کے لیے بین الاقوامی سطح پر مدد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغان وفد انہیں مدعو کرنے پر آذربائیجان کی حکومت کا شکر گزار ہے۔ وفد کو مذاکرات میں مبصر کا درجہ حاصل ہوگا، کیونکہ طالبان کو افغانستان کی حکومت کے طور پر باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی میں موسمیاتی تاریخ دان جوانا ڈیپلیج نے کہا کہ افغانستان کو شرکت کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے اس جائزے کے بارے میں اس سوال کے جواب میں کہ ، موسمیاتی تبدیلیاں مردوں کے مقابلے میں خواتین پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں، خالص نے کہا کہ "موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، اس کا اثر عورتوں، بچوں، مردوں، پودوں یا جانوروں پر پڑ سکتا ہے، لہذا اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔‘‘
مطیع الحق خالص نے کہا کہ انہوں نےامریکہ سمیت کئی ملکوں کے ساتھ دو طرفہ بات چیت کی درخواست کی ہے اور اگر یہ درخواست قبول ہو جاتی ہے تو ان کے لیے خوشی کا باعث ہوگی۔
انہوں نے کہا "ہم گزشتہ تین کانفرنسوں کا حصہ نہیں تھے... لیکن ہمیں خوشی ہے کہ اس بار ہم یہاں ہیں اور ہم افغان عوام کا پیغام بین الاقوامی برادری تک پہنچا سکیں گے۔"
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم