رسائی کے لنکس

افغانستان میں ساڑھے تین کروڑ افراد کرونا کا شکار ہو سکتے ہیں: رپورٹ


افغانستان میں کرونا کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ (فائل فوٹو)
افغانستان میں کرونا کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر ہجرت سے پیش آنے والے مسائل سے متعلق تنظیم انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن (آئی او ایم) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں ناکافی انتظامات کے باعث ساڑھے تین کروڑ افراد کرونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال جنوری میں کرونا وبا کے آغاز سے اب تک دو لاکھ 71 ہزار افغان شہری ہمسایہ ممالک ایران اور پاکستان سے واپس آئے ہیں۔

ناکافی وسائل کے باعث بیشتر افراد کی واپسی پر کرونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اسکریننگ اور بیمار افراد کو قرنطینہ میں بھی نہیں رکھا جا سکا تھا۔

ادارے کی یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب افغانستان میں کرونا کے تصدیق شدہ کیسز تین ہزار کے لگ بھگ اور پانچ مئی تک مرض سے 90 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

افغان حکام خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ملک کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں آ سکتا ہے۔

کابل میں گزشتہ دنوں کرونا وائرس کے کیے جانے والے 500 ٹیسٹس میں سے نصف میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ ماہرین صحت اسے خطرناک رجحان قرار دے رہے ہیں۔

آئی او ایم کے افغانستان میں ایمرجنسی ریسپانس آفیسر نکولس بشپ کا کہنا ہے کہ وبا کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ ٹیسٹنگ کی ناکافی سہولیات ہیں۔ ملک بھر میں صرف آٹھ مقامات پر کرونا وائرس کی ٹیسٹںگ ہو رہی ہے۔ جہاں ہر ٹیسٹنگ مرکز میں روزانہ صرف 100 سے 150 ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان میں پھنسے افغان شہریوں کو وطن واپسی کی اجازت
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:10 0:00

افغانستان کو تربیت یافتہ طبی عملے کی قلت اور ٹیسٹنگ کٹس کی بھی کمی کا سامنا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ وائرس سے زیادہ بیمار ہونے والے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے بھی ملک میں طبی سہولیات کا فقدان ہے۔

افغانستان میں ایڈز، تپ دق، کینسر اور مناسب غذا نہ ملنے سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا مریض بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ لہذٰا وائرس کا پھیلاؤ ملک میں خطرناک صورتِ حال پیدا کر سکتا ہے۔

نکولس بشپ کا کہنا ہے کہ اگرچہ ملک بھر میں سماجی پابندیوں کا اطلاق ہے اور قرنطینہ مراکز بھی بنائے گئے ہیں۔ لیکن مقامی روایات اور فکرِ معاش کے باعث لوگوں کو باہر نکلنا پڑتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے ملک جہاں اوسطً ہر کنبہ سات افراد پر مشتمل ہے۔ سماجی فاصلہ رکھنا بہت مشکل ہے۔ پورا خاندان ایک ہی کمرے میں رہتا ہے۔ جہاں بیشتر گھروں میں ہوا اور روشنی کا بھی گزر نہیں ہے۔

نکولس بشپ نے انکشاف کیا کہ افغانستان کے دیہی علاقوں میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 60 فی صد افغان شہری کووڈ-19 سے ناواقف ہیں۔

افغان ورکرز ایران سے بھی بڑی تعداد میں واپس آ رہے ہیں۔
افغان ورکرز ایران سے بھی بڑی تعداد میں واپس آ رہے ہیں۔

آئی او ایم کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال کے باوجود ادارہ افغانستان کی وزارتِ صحت سے مل کر وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

بیرونِ ممالک سے آنے والوں کی مناسب اسکریننگ اور مشتبہ مریضوں کو آئسو لیشن وارڈز میں منتقل کرنے کے لیے بھی حکومت کے ساتھ تعاون کیا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ ہزاروں افغان شہری روزگار کے حصول کے لیے پاکستان اور ایران میں مقیم ہیں۔ لیکن کرونا وبا کے باعث کئی شہری واپس اپنے ملک لوٹ آئے ہیں۔

گزشتہ ماہ پاکستان سے ایک ہی دن میں لگ بھگ 20 ہزار افراد بغیر دستاویزات کی تصدیق کہ افغانستان میں داخل ہو گئے تھے۔ سرحد پر اسکریننگ اور دیگر سہولیات کے فقدان کے باعث حکام یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اس سے ملک میں وائرس مزید پھیل سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG