اگرچہ افغانستان اور پاکستان کو مختلف اندرونی چیلنجز درپیش ہیں۔ لیکن دونوں ملکوں کو کرونا وائرس کے بحران کو ایک قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھ کر نمٹنے کی کوششیں کرنا ہوں گی۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے ماہرین نے ایک آن لائن مباحثے میں کہا کہ کوڈ 19 محض صحت عامہ کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ بحران دونوں ممالک میں اقتصادی اور امن و امان کے معاملات کو بگاڑ سکتا ہے۔
واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام اس مباحثے میں امریکی، پاکستانی اور افغان ماہرین نے موجودہ صورتِ حال پر اپنی آرا کا اظہار کیا۔
گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے، انسٹی ٹیوٹ کے افغانستان اور پاکستان کے ڈائریکٹر، مارون وائن بام نے دونوں ملکوں کی صورتِ حال بیان کی اور کہا کہ کرونا وائرس کی وبا نے دونوں ممالک کو ایک ایسے وقت میں متاثر کیا ہے جو دونوں ہی کے لیے بہت اہم ہے۔
صحت عامہ کی ماہر نتاشا انور، جو کہ آغا خان یونیورسٹی اسپتال لاہور کی کی لیبارٹری میں ایک ماہر سائنس دان ہیں، اور افغانستان کے ماہر اور صحت کے مشیر ڈاکٹر حامد المیار نے سلائیڈ کے ذریعے کوڈ 19 کی تازہ ترین صورتِ حال بیان کی۔
دونوں ملکوں میں ایک مشترکہ بات یہ ہے کہ ان کی آبادی میں ان لوگوں کا تناسب زیادہ ہے جن کی عمر 20 سے 29 سال کے درمیان ہے۔ لیکن ساتھ ہی، لوگوں میں صحتیابی کی شرح بھی زیادہ ہے۔ جب کہ اس موذی مرض سے شکار ہونے والے زیادہ تر لوگ سینئر شہری ہیں۔
نتاشا انور نے بتایا کہ ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں ایک قومی پلان پر عمل کیا جا رہا ہے اور صوبائی حکومت اور رضاکارانہ تنظیمیں مل کر اس پر عمل کر رہی ہیں۔
پاکستان کے نامور ماہر اور پنجاب یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر، حسن عسکری رضوی نے کہا کہ بحران کے ابتدائی دنوں کے مقابلے میں پاکستان کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے نسبتاً ایک بہتر پوزیشن میں ہے۔
کرونا وائرس کے چیلنج کو قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے، عسکری رضوی نے کہا کہ اس سے سبق ملتا ہے کہ ہمیں نہ صرف صحت عامہ، تعلیم اور ماحولیات میں بہتری لانی چاہیے، بلکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے پر بھی توجہ دینا چاہیے۔۔
اس ضمن، میں انہوں نے پاکستان کی اقتصادی صورتحال کا خاص ذکر کیا اور کہا کے اب پاکستان کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ بجٹ کے خسارے اور تجارت میں عدم توازن جیسے مسائل پر پیش رفت حاصل کر سکے، کیونکہ اس وقت حکومت کی توجہ کو وڈ 19 پر مرکوز ہے اور ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص رقوم بھی کرونا وائرس سے نمٹنے اور لوگوں کی تکالیف کم کرنے پر خرچ کی جا رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس عالمی وبا کی وجہ سے دنیا کے اقتصادی نظام میں عدم مساوات مزید پھیلے گا اور دیکھنا یہ ہوگا کہ ترقی پذیر ممالک کو قرضوں میں کہاں تک چھوٹ ملتی ہے۔ ان کے مطابق، کرونا وائرس کے بعد پاکستان کو شدید اقتصادی مسائل کا سامنا ہوگا۔
گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے، واشنگٹن میں قائم بروکنگز انسٹیٹیوشن کی سینئر ماہر وینڈا براؤن نے کہا کہ کرونا وائرس نے افغانستان کے پہلے ہی سے خراب حالات کو مزید گنبھیر کر دیا ہے۔ بقول ان کے، ''ایک طرف جنگ جاری ہے تو دوسری طرف ملک کو سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے۔ ایسے میں افغانستان جس کی 65 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے، سنگین مسائل سے دوچار ہے''۔
وینڈا براؤن نے کہا کہ اقتصادی طور پر افغانستان کو شدید نقصان ہوا ہے اور اس کے کسٹمز کی آمدنی میں 95 فیصد کمی،جبکہ ٹیکس اکٹھا کرنے کی شرح میں تیس فیصد کمی آئی ہے۔
جہاں تک دو دہائیوں سے جاری جنگ کی بات ہے، وینڈا براؤن نے کہا کہ افغان طالبان نے جنگ بندی کے معاہدے پر راضی ہونے سے انکار کر دیا ہے اور وہ اپنے پرانے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، طالبان کی پر تشدد کارروائیوں میں روزانہ تقریباً پچیس افغان سکیورٹی کے اہلکار مارے جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان حالات میں امریکہ کا کردار بھی اہم ہے۔ لیکن، امریکہ اپنی افواج کو افغانستان سے نکالنے کے ٹائم ٹیبل پر کام کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں، وینڈا براؤن نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان کی ایک ارب ڈالر کی امداد کی کٹوتی بھی کی ہے اور اب افغانستان کے لیے اس موذی مرض کے نئے چیلنج اور پہلے سے جاری لڑائی کے حالات کی وجہ سے انتہائی مشکل حالات پیدا ہوگئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کرونا کے پھیلتے ہوئے مرض، غربت، پرتشدد کارروائیوں اور اقتصادی مشکلات ںے افغانستان کے لیے مسائل کا انبار لگا دیا ہے۔ پہلے ہی افغانستان بین الاقوامی امداد کے بغیر نہیں چل سکتا تھا، آئندہ وقت میں اس کی مشکلات میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوگا۔