افغانستان کے ایک روپوش کمانڈر اور سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار کی جماعت "حزب اسلامی" نے کہا ہے کہ بین الاقوامی افواج کا افغانستان سے مکمل انخلا اس کے لیے مصالحتی عمل میں شرکت کی پیشگی شرط نہیں ہے۔
گلبدین حکمت یار کے ایک ترجمان نے منگل کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کی جماعت کا وفد کابل حکومت کے نمائندوں سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اس میں تاحال کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ بین الاقوامی افواج کا افغانستان سے مکمل اںخلا حزب اسلامی کی پیشگی شرط ہے یا نہیں تو ان کا کہنا تھا کہ "نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔"
"یہ تو ہم نے پہلے سے کہا ہے کہ ہم بین الاقوامی تفاہم کے لیے ہر جگہ ہر مقام پر (بات چیت کے لیے) تیار ہے۔۔۔بیرونی افواج واپس جائے اس پر حکومت سے بھی کہا ہے اور حکومت نے وقت مانگا ہے۔"
حزب اسلامی (گلبدین) افغانستان میں 1980ء کی دہائی میں سوویت افواج کے خلاف برسرپیکار رہی ہے جب کہ گزشتہ چند سالوں میں اس کے جنگجو بین الاقوامی افواج کے خلاف بھی کارروائیاں کرتے رہے ہیں اور طالبان کے ساتھ بھی اس کی مخالفت چلتی آ رہی ہے۔
گلبدین کی جماعت سابق افغان صدر حامد کرزئی کے دور میں بھی حکومت سے مذاکرات کر چکی ہے لیکن یہ بات چیت بے نتیجہ رہی تھی۔
امریکہ نے گلبدین حکمت یار کو بین الاقوامی دہشت گردوں کے گروپ میں شامل کر رکھا ہے جب کہ وہ اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں بھی شامل ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی نے جنگ سے تباہ حال ملک کے تمام گروپوں کو بات چیت میں شریک ہونے کا کہہ رکھا ہے لیکن طالبان اپنی پیشگی شرائط کے منظوری تک ایسے کسی عمل میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر چکے ہیں۔
ان شرائط میں بین الاقوامی افواج کی واپسی اور اپنے رہنماؤں کے نام دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کرنا بھی شامل ہیں۔
2014ء کے اواخر میں تمام بین الاقوامی لڑاکا افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد اب تقریباً 12 ہزار کے لگ بھگ غیر ملکی فوجی ایک معاہدے کے تحت یہاں تعینات ہیں جن میں اکثریت امریکی فوجیوں کی ہے۔ یہ اہلکار مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔